پشاور(آن لائن) خیبرپختونخوا کے حکومت کا مالی سال 2021-22 کا 1 ہزار 118 ارب روپے کل تخمینہ کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس میں 199 ارب ضم اضلاع کے لیے جبکہ 919 ارب روپے باقی صوبے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 371 ارب روپے تجویز کیا ہے جوکہ گزشتہ مالی
سال کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کے 100.3 ارب ضم اضلاع میں اور باقی اضلاع میں 270.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبائی وزیرخزانہ تیمورسلیم جھگڑا نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت پہلی بار بجٹ اخراجات کے لیے نظریے ڈویلپمنٹ پلس اور سروس ڈیلیوری متعارف کرا رہے ہیں ڈویلپمنٹ پلس بجٹ کیلئے 500 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جس میں صحت کارڈ پلس، سکولوں میں فرنیچر فراہمی اور ادویات کے بجٹ میں اضافہ جیسے امور شامل ہیں جبکہ سروس ڈیلیوری بجٹ کی مد میں 424 ارب رکھے گئے ہیں۔جس میں اساتذہ، ڈاکٹرز، نرسز کی تنخواہیں، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی، ریسکیو 1122 ایمبولینسز کو ایندھن کی فراہمی جیسے امور سروس ڈیلیوری بجٹ کا حصہ ہیں۔خیبرپختونخوا کے بجٹ برائے مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 37 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جس میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف تمام سرکاری ملازمین کو ملے گااس کے علاوہ خصوصی الاؤنس نہ لینے والے ملازمین کے لئے فنکشنل یا سیکٹرول الاؤنس میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔جبکہ سرکاری رہائش نہ رکھنے والے ملازمین کے ہاؤس رینٹ میں 7 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی ملازم کی تنخواہ میں اضافہ کسی
وجہ سے نہ ہوا تو اس کے لیے شکایات ازالہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔خیبرپختونخوا کے بجٹ برائے مالی سال 2021-22 پنشن اخراجات کو کم کرنے کے لیے نظام میں اصلاحات لا رہے ہیں۔پینشن میں 10 فیصد کر رہے ہیں۔ پنشن اخراجات میں گزشتہ چند سالوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ پنشن اخراجات 03-2004 میں بجٹ کا صرف 1
فیصد، اب 13.8 فیصد ہیں۔حکومت صوبے میں ریٹائرمنٹ کی کم از کم عمر 55 سال اور سروس کی حد 25 سال کر رہے ہیں اس اقدام سے سالانہ 12 ارب روپے کی بچت ہو گی پنشن رولز میں تبدیلی اور پنشن مستحقین کی تعداد کم کرنے سے سالانہ 1 ارب روپے کی بچت ہو گی فوت ہو جانے والے ملازمین کی پنشن ان کی بیواؤں، والدین یا
پھر بچوں کو ملے گی۔ بیواؤں کی پنشن میں 75 کی بجائے 100 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔صوبے میں کنٹری بیوٹری پنشن کے لیے اصلاحات کر رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں تعلیم کے لیے خطیر بجٹ 200 ارب سے زائد رکھے گئے ہیں صحت کے شعبہ کے لیے 142 ارب روپے، زراعت کے لئے ساڑھے 25 ارب سے زائد، سی اینڈ
ڈبلیو کے لیے 58.789 ارب روپے،انرجی اینڈ پاور کے لیے 17.25 ارب، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن 1.9 ارب روپے،فنانس ڈیپارٹمنٹ کے لیے 41.8 ارب،اعلیٰ تعلیم کے لئے 27.56 ارب،محکمہ داخلہ کے لیے 91.7 ارب،1.78 محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے 2.58 ارب تجویز کیے گئے جبکہ
آبپاشی کے 19.9 ارب،محکمہ سیاحت و کھیل کے لیے 20.5 ارب،محکمہ صنعت کے لیے 5.01 ارب رکھے گئے ہیں۔صحت سہولت کارڈ کو مزید مفید بنانے کے لیے اس کے دائرہ کار کو مزید توسیع دی جائے گی۔اگلے سال تین لاکھ نئے گھرانوں کو اس پروگرام میں رجسٹر ڈ کیا جائے گا۔صحت کارڈ کے لیے مالی سال 22-2021 21
ارب مختص جگر کی پیوندکاری کو صحت کارڈ پلس مں شامل کرنے کے لیے فی مریض 50 ملین تک روپے خرچ کیے جاسکیں گے۔صحت کارڈ پیکج میں ضم شد و اضلاع کے لیے ایک ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔صوبائی حکومت نے چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف دینے کے لیے لینڈ ٹیکس کی شرح صفر کر رہے ہیں جس سے 07 لاکھ
کسانوں کو ریلیف ملے گا۔ چھوٹی گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف ایک روپیہ جبکہ بڑی گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف 1 فیصد ہو گی۔ بجٹ میں پروفیشنل ٹیکس سے سب کو چھوٹ دے جا رہے ہیں۔ جبکہ مزید 12 مختلف ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جا رہی ہے گزشتہ مالی سال میں 17 ٹیکسوں میں شرح میں کمی کو برقرار رکھا
جائے گا۔بجٹ میں امسال 20 ہزار، 3 ہزار سکول لیڈرز بھرتی کریں گے۔جس میں 4300 اساتذہ ضم اضلاع میں بھرتی کریں گے جبکہ97 آئی ٹی بھی بنیں گی۔بجٹ میں 1 ارب روپے کالجز کے آپریشن بجٹ کے لیے رکھے ہیں جس سے 30 کالجز کو ماڈل، 40 کالج نئے بنائیں گے۔ معذور بچوں کے رحمت العالمین فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ڈیرہ، سوات، پشاور میں سٹریٹ چلڈرن کے لیے ماڈل انسٹیٹیوٹ بنائیں گے۔