اسلام آباد (این این آئی) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابہ کے دور ان مالی سال 2021-22کا 8487ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشن میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف اور کم سے کم اجرات بیس ہزار
روپے مانہ رکھنے کی تجویز ہے ،موبائل کالز اور انٹرنیٹ پیکجز مہنگے، الیکٹرک اور 850 سی سی گاڑیاں سستی ہونگی ،احساس پروگرام کیلئے 260 ارب روپے مختص رکھنے کی تجویز ، شرح نمو کا ہدف 4.8 مقرر ،ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے،کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے، ہر گھرانے کو صحت کارڈ اور ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی،اخراجات میں 14 فیصد کا اضافہ ،7523 ارب روپے رہنے کی توقع ہے، مجموعی بجٹ خسارہ 6.3 فیصد ہوگا ،موجودہ سال کا بجٹ خسارہ 7.1 فیصد ہے،آئندہ مالی سال کیلئے مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7909 ارب روپے ہے اور ریونیو میں اضافہ کا ہدف 24 فیصد ہے، ایف بی اذر کا ہدف 24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے کی تجویز ہے،وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2704 ارب روپے سے بڑھا کر 3411 ارب روپے کردیا ہے، صوبوں کو 707 ارب روپے اضافی دیے جائیں گے،کووڈ ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے،کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے، جون 2022 تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی،نئے سال کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 16 فیصد اور جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، جس میں سے پاک آرمی کا دِفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 7 فیصد ہے،آبی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے 91 ارب
روپے، داسو ہائیڈور پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کیلئے 57 ارب روپے دیامبر بھاشا ڈیم کیلئے 23ارب، مہمند ڈیم کیلئے 6ارب روپے ، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کیلئے 15ارب روپے کی تجویز ہے،10 ملین روپے تک سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے استثنیٰ حاصل ہوگا ۔ جمعہ کو قومی اسمبلی
کااجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن کے شدید احتجاج ، شور شرابے اور نعرے بازی میں آئندہ مالی سال 2021-22کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم
عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں، مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں، یہ کامیابی وزیراعظم کی مثالی قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں
کون سے حالات ورثے میں ملے، یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بہت زیادہ قرضوں کی وجہ سے ہمیں دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈالر کا تاریخ خسارہ ملا، 25 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، اس عرصے کے دوران برآمدات میں منفی 0.4 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100
فیصد اضافہ ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ شرح سود کو مصںوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے جس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو
گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016 کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور
میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔وفاقی وزیر نے بتایاکہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 40 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ زراعت کے شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص، بجلی کی ترسیل کے لیے 118 ارب روپے مختص، موسمیاتی
تبدیلیوں کے تخفیف کے منصوبوں کے لیے 14 ارب روپے مختص، کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے ایک ارب 10 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز، کووڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے مختص، سندھ کو خصوصی گرانٹ کے لیے 12 ارب روپے مختص کئے گئے ۔ انہوںنے یکم جولائی 2021 سے تمام وفاقی
ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف کا اور تمام ملازمین کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا ۔انہوںنے کہاکہ اردلی الانس 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 کردیا جائے گا۔ گرید ایک سے پانچ تک کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الانس 450 روپے سے بڑھا کر 900 روپے کئے جانے کی تجویز ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ
نے بتایاکہ کم از کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے کردی گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ کے آخری دو سال میں جون 2018 تک 10 ملین ڈالر رہ گئے اس دور میں بیرونی قرضے میں اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معشیت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود 5.5 شرح
نمو کا ڈھول پیٹا گیا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لیے گئے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ساری ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔انہوں نے کہا کہ ہم حقیقی منظر پیش کررہے ہیں، قبرستان میں کھڑے ہو کر قبروں کو کھودنے کے بجائے قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت
کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے میں خوفزدہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے 20 ارب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر کا سرپلس میں تبدیل کردیا گیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم
استحکام سے معاشی نمو کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معاشی نمو میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کورونا کی دو لہروں کا مقابلہ کرنا پڑا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کی شرح ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کپاس کے علاوہ تمام دیگر زرعی اشیا کی
پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ صنعتی ترقی بھی غیر معمولی رہی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے صنعت شعبے میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماضی میں نمو منفی 10 تھی۔انہوں نے کہا ہم کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہے اگرچہ مارچ سے مئی کے دوران تیسری لہر کا سامنا کرنا پڑا لیکن کاروبار کی بندش
سے گریز کیا۔انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ گھرانوں کی مدد کی گئی۔ انہوںنے کہاکہ پہلے سال میں ایک کروڑ 15 لاکھ گھرانوں کو امداد دی گئی۔وزیرخزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر کی تاریخی سطح ریکارڈ کی گئی، بیرون سرمایہ کم آمدنی والے طبقے سے ہے، جس کی وجہ ان افراد کی اشیا کی خرید و
فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بیرونی ترسیلات زر اس سال 29 ارب ڈالر پر پہنچے گی، یہ سب سمندر پار پاکستانیوں کا عمران خان پر اعتبار کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافے سے کسانوں کو 3 ہزار 100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ برس 2 ہزار 300 ارب روپے تھی، جس سے
آمدنی میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں نمو سے لوگوں کے چھینے ہوئے روزگار کووڈ سے پہلے کی سطح پر بحالی کی نشان دہی ہو رہی ہے بلکہ روزگار میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ خدمات کے شعبے میں اضافہ خاص طور پر
ای کامرس کے ذریعے آن لائن خریداروں کے ذریعے روزگار میں بہتری کا عکاس ہے۔انہوں نے کہا کہ کووڈ-19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا، جس کی وجہ معشیت کی غیر معمولی کارکردگی ہے، ٹیکس کی وصولی 4 ہزار ارب
کی نفسیانی حد عبور کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 75 فیصد زائد پیسے دئیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ برآمدات ماضی کے مقابلے میں اب بہت زیادہ ہیں، اس سال برآمدات میں شان دار نمو دیکھنے میں آئی، جس میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔انہوںنے کہاکہ ادائیگیوں کے توازن میں قابو پالیا گیا ہے اور سرپلس ہوگیا
ہے، غذائی اجناس فصلیں تباہ ہونے پر برآمد کرنا پڑی۔شوکت ترین نے کہا کہ ترسیلات زر میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا اور 29 ارب تک پہنچ گئے ہیں اور بہتری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری خزانے میں 3 مہینے سے زیادہ درآمدات کے لیے کافی ہے، ڈالر 155 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان غذائی
اجناس میں خسارے کا ملک بن گیا ہے، عالمی مارکیٹ میں غزائی اجناس بلند ترین سطح پر ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ صوبوں کے تعاون سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے جامع پلان ترتیب دیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے برآمدات میں اضافہ ادائیگیوں کے توازن میں جاری مسلسل بحران سے نکالنے اور بار بار
آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جانے سے بچنے کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے ہم اس سیکٹر کے لیے کافی مراعات کا اعلان کر رہے ہیں اور ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں صنعتیں منتقل کی جائیں گی، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔شوکت ترین نے کہا کہ اس
وقت پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، وزیراعظم کے ہاؤسنگ اور تعمیرات پیکج سے اس شعبے میں بہت سی معاشی سرگرمیوں اور اس شعبے سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس
کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس پروگرام کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھارہی ہے، اس سلسلے میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ میں ربط کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس اقدام کے تحت ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے
ٹیکسوں میں رعایت کا ایک پیکج خاص طور پر واضح کیا گیا ہے، اس کے علاوہ حکومت کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں پہلی بار مورٹگیج فنانسنگ شروع کی گئی ہے، تمام صوبائی حکومتیں اس اقدام میں معاونت کی غرض سے اراضی کا تعین اور
ہاؤسنگ منصوبوں کا آغاز اور نجی شعبے کی ہاؤسنگ اسکیموں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بینک لوگوں کی رقوم کی فراہمی کے پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں بینکوں کو 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری جاچکی
ہے اور ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترقی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت ہمارا وڑن بہت سادہ ہے ہم زیادہ منافع بخش پروگرام
میں سرمایہ کاری کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جس سے بود و باش میں بہتری آئے گی اور کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔شوکت ترین نے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے کہا کہ ہماری حکومت نے زراعت کے شعبے کو غیرمعمولی ترجیح دی ہے۔انہوں نے کہا کہ امسال گندم، چاول، گندے میں بہت زیادہ پیداوار ہوئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی
وجہ سے نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد لائیو اسٹاک اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مویشوی، ماہی گیری، آپباشی کے شعبے کا اعادہ کیا جائے گا جبکہ ہم نے اگلے سال زراعت کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے اور وزیراعظم عمران خان چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے خواہاں ہیں۔انہوںنے کہاکہ تین بڑے ڈیمز کی تعمیرات ہماری ترجیحات میں شامل ہوں گے جس میں داسو ہائیڈروپاور
پراجیکٹ پہلے میں کے لیے 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ نیم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک چین
اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 13 ارب ڈالر مالیت سے 17 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں جبکہ 21 ارب ڈالر سے 21 منصوبے جاری ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹریجک نوعیت کے 26 منصوبے زیر غور ہیں جن کی مالیت 28 ارب ڈالر ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم ایل ون ایک اہم منصوبہ جس کی لاگت 9.3 ارب
ڈالر ہے جسے تین مراحلے میں مکمل کیا جائے گا، پیکج ون کا آغاز مارچ 2020 شروع ہوچکا جبکہ پیکج ٹو جولائی 2021 اور پیکج تھری جولائی 2022 میں شروع ہوگا۔شوکت ترین نے کہا کہ ہم ساری کی ساری بجلی صارفین کو فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اس لیے ہماری سرمایہ کاری میں ترجیحات یہ ہوگی کہ اس
چیلنج پر پورا اتریں۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کیے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی میں کے ون اور کے ٹو منصوبے اور تربیلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کی پانچویں توسیع کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لیے خصوصی
ترقیاتی پیکج شروع کیے ہیں اس مقصد کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں اور اس میں درجن منصوبے شامل ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ زرعی شعبے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبی وسائل میں بہتری ہمارا نصب العین ہے، جس کے لیے ساڑھے 19 ارب روپے رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کے پی ضم شدہ اضلاع
کی ترقی کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں 30 ارب روپے اگلے 10 سالہ ترقی منصوبے کے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پبلک پرائیویٹ پارنٹرشپ پر حکومت یقین رکھتی ہے، اتھارٹی کے پاس مختلف مراحل میں 50 منصوبے موجود ہیں جن کی مجموعی لاگت 2 ہزار ارب روپے، جس میں ریل، صحت، لاجسٹک اور دیگر
منصوبے شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ 710 ارب روپے کے مزید 6 منصوبے رواں سال شروع ہوں گے، جس کے لیے حکومت وائبلیٹی فنڈز کی مد میں 61 ارب روپے ادا کرے گی۔انہوںنے کہاکہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی منصوبہ ہے، اور مالی سال میں 14 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ سماجی شعبے میں وزیراعظم ترجیح دیتے ہیں، اس میں صحت، تعلیم، پائیدار ترقی کے اہداف، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر شعبہ جات ہیں اور اس مد میں 118 ارب روپے کے فنڈ مختص کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سندھ کو 12 ارب کو خصوصی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری 2022 کے لیے وفاق کی جانب
سے 5 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔شوکت ترین نے کہاکہ سرکاری قرضے میں اب کمی آنا شروع ہوگئی ہے،اگلے تین سالوں میں ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور بہتری لانے کی وجہ سے سرکاری قرضے میں مزید کمی آئیگی اور اسے پائیدار سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعلان کرتے ہوئے انہیں خوشی ہے کہ
اب معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے، بجٹ 2021-22میں جامع اور پائیدار نمو کا حصول ہمارا محور ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ اگلے سال کے لئے ہم نے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، اگلے دو سے تین سالوں میں
کم سے کم 6 سے 7 فیصد نمو یقینی بنانا چاہتے ہیں جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور وہ خوشحال زندگی گزار سکیں گے،اس مقصد کے لئے صنعت ،برآمدات ، ہاسنگ و تعمیرات، کمزور طبقات کے لئے سماجی تحفظ کے پروگرام اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ زراعت کے شعبے
میں جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت بیج، کھاد، زرعی قرضے، ٹریکٹر اور مشینری ، کولڈ ویئر ہاسز کی تعمیر اور فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری میں مدد کی جائے گی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مختلف سروسز پر منافع کا مارجن کم ہے اور عائد ودہولڈنگ شرح بہت زیادہ ہے جس سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،تجویز
ہے کہ آئل فیلڈ سروسز، ویئر ہاسنگ سروسز، کولیکٹرل مینجمنٹ سروسز، سیکیورٹی سروسز اور ٹریول اینڈ ٹور سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس شرح کو آٹھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد تک کردیا جائے۔ ۔ شوکت ترین نے کہاکہ موبائل سروسز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس شرح 12.5 فیصد ہے،عام شہری پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ اگلے مالی سال کے لئے اس شرح کو کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے،تجویز ہے کہ اس کو بتدریج 8 فیصد تک کم کردیا جائے۔