کراچی (آن لائن) عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے حکومت کو سانحہ ڈہرکی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 63 جانوں کا ضیاع برسر اقتدار ٹولے کا خود کردہ جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام لوگ اتحاد ملت و سر سید ایکسپریس کے حادثات میں جاں بحق مسافروں اور دیگر متاثرین کے غم میں برابر کا شریک ہے اور
گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا افسوس کا مقام ہے کہ یہ برسر اقتدار ٹولے کا خود کردہ جرم ہے۔ وزیر ریلوے اعظم سواتی نے قبول لیا ہے کہ ڈہرکی کے نزدیک 8 کلومیٹر کا ریلوے ٹریک نہایت مخدوش حالت میں تھا، اس کے بارے میں ریلوے حکام کو بار بار یاد دہانی کرائی، مگر بے سود! دراصل یہ ذمہ داریوں کو کندھے سے اتارنے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ وزیر موصوف سے کون پوچھے کہ متاثرہ ٹریک کی درستگی کیلئے انہوں نے کبھی کوئی ٹینڈر طلب کئے، کبھی فنڈ مختص کئے؟ بالکل نہیں۔ انہی کا کہنا ہے کہ سر سید ایکسپریس کے ڈرائیور نے بریک ضرور لگائے مگر اس وقت دیر ہوچکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ملت ایکسپریس کی 12 بوگیاں ڈی ریل ہونے کے کتنی دیر بعد سر سید ایکسپریس گری ہوئی بوگیوں سے آ ٹکرائی، اگر وقفہ کافی تھا تو آخر الذکر کو وارننگ کیوں نہیں دی گئی۔ دونوں ٹرینوں کے بلیک باکس دستیاب ہیں مگر ان سے استفادہ کرنے کی ابھی تک فرصت نہیں ملی۔ مزید برآں اگر تو ان ٹرینوں کے حادثات میں وقفہ تھوڑا بھی تھا تو انجن کی فلیش لائٹس بہت طاقتور ہوتی ہیں اور سر سید کے ڈرائیور کو میلوں دور اپنے ٹریک پر الٹی پڑی ہوئی بوگیوں بلا دقت نظر آجانی چاہیئے تھیں، پھر بریک لگانے میں دیر کس بات کی؟ دراصل ٹرک ڈرائیور ہوں یا ٹرین انجنوں میں بیٹھا ہوا عملہ،
ان میں سے اکثر نشہ کرتے ہیں مگر کوئی نگہداشت نہیں۔ 1990ء کے بعد یہ سب سے بڑا ریلوے حادثہ ہے اور خود موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور میں 17 حادثات پہلے ہی ہوچکے ہیں، مگر سبق کون لے۔ دوسری طرف مین لائن 1 کا منصوبہ ہو یا سی پیک کے دیگر پروگرام، موجودہ حکومت نے ان پر فْل اسٹاپ لگا رکھا ہے۔
مین لائن 1 جو اربوں ڈالر منصوبہ ہے اس میں پاکستان نے 15 فیصد حصہ ڈالنا ہے، جبکہ بڑی مالی ذمہ داری چین کی ہے۔ سواتی صاحب نے قبول فرمایا ہے کہ ریلوے حادثات کا ازالہ ٹریک کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں، پھر یہ چین اور امریکہ کی سیاست پر پاکستانیوں کی قیمتی جانیں کیوں ضائع کی جا رہی ہیں۔