اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پولیس سروس آف پاکستان میں گزشتہ روز کی جانے والی اعلیٰ سطح کی تبدیلیوں کو حکام ’’معمول کی تبدیلی‘‘ قرار دے رہے ہیں لیکن پانامہ جے آئی ٹی کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والے واجد ضیاء کو ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے ہٹائے جانے کے اقدام نے کئی لوگوں کو حیران و
پریشان کر دیا ہے۔وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے مطابق تمام تبدیلیاں بشمول واجد ضیاء معمول کے اقدامات ہیں۔ تاہم، کچھ سینئر عہدیداروں کے مطابق واجد ضیاء کو ہٹایا جانا اچانک اور ناخوشگوار ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ ’’ہم توقع کر رہے تھے کہ وہ آئندہ سال ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے ریٹائر ہوں گے لیکن انہیں ہٹا کر غیر اہم عہدہ دیدیا گیا ہے۔‘‘ شہزاد اکبر نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ واجد ضیا کو ہٹائے جانے کے پیچھے کوئی ناخوشگوار وجہ ہے۔انہوں نے تو اصرار کیا کہ ضیاء کو ہٹایا نہیں گیا بلکہ ان کا نئے عہدے پر تبادلہ کیا گیا ہے کیونکہ حکومت ایف آئی اے کو نئی قیادت کے سپرد کرنا چاہتی تھی۔آئی جی کے پی کے ثناء اللہ عباسی نئے ڈی جی ایف آئی اے ہیں۔ شہزاد اکبر نے واجد ضیا کی خدمات کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اچھے شخص ہیں۔ لیکن ذرائع کو وجہ سمجھ نہیں آتی کہ ایف آئی اے میں اتنے بڑے عہدے پر تبدیلی کیوں کی گئی۔
تاہم انہوں نے اشارتاً کہا کہ واجد ضیا کو انتظامی لحاظ سے کچھ ’’مشکلات‘‘ کا سامنا تھا۔ذرائع نے واضح کیا کہ انتظامی لحاظ سے ایف آئی اے وزارت داخلہ کے ساتھ منسلک ادارہ ہے لیکن فی الوقت یہ ادارہ وزیراعظم کے معاونینِ خصوصی اور وزیراعظم ہائوس کے انتظامی سیکشن کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔وزیر داخلہ شیخ رشید، سیکریٹری داخلہ یا خود وزارت
اہم معاملات (مثلاً چینی اسکینڈل کی تحقیقات) میں زیادہ متعلقہ نہیں ہیں کیونکہ ایسے معاملات کے حوالے سے ایف آئی اے کو وزیراعظم آفس سے براہِ راست احکامات موصول ہوتے ہیں اور وزارت داخلہ کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر براہِ راست ایف آئی اے کے ریجنل ڈائریکٹر نارتھ (پنجاب اور کے پی) ابوبکر اور ڈائریکٹر
لاہور ڈاکٹر رضوان کو احکامات جاری کرتے ہیں۔ تاہم، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ایف آئی اے کے معاملات براہِ راست مشیر داخلہ شہزاد اکبر دیکھتے ہیں۔ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ایجنسی میں اعلیٰ ترین عہدے پر تبدیلی سے ایجنسی بجٹ کے بعد شوگر مافیا کے ارکان کو گرفتار کر سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر
نے لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر کے حالیہ دورے کے دوران ایجنسی کی حوالات کا معائنہ بھی کیا تھا۔ ثناء اللہ عباسی نے اپنی ملازمت کا زیادہ تر حصہ اپنے آبائی صوبے سندھ میں گزارا ہے اور اب انہیں ڈی جی ایف آئی اے لگایا گیا ہے۔ آئی جی کے پی کی حیثیت سے وہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے عباسی کو مشکلات سے بھرپور عہدہ دیا ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا وہ اپنے پیش رو کو درپیش ’’انتظامی مسائل‘‘ سے نمٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔