اسلام آباد(این این آئی ) قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوارنے سٹیل مل کی جلدازجلدنجکاری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہاہے کہ سٹیل مل کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہورہاہے سندھ حکومت سے لیزاورملازمین کامسئلہ جلد حل کیاجائے جبکہ قائمہ کمیٹی نے غلط تشہیر پر مسابقتی کمیشن اور ایم جی و دیگر
گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو بلا لیا،حکام نے کمیٹی کوبتایا ہے کہ سٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے نئی کمپنی بنالی ہے 1228ایکڑزمین اس کمپنی کے نام پر منتقل کریں گے، جون کے تیسرے ہفتہ میں نجکاری کااشتہاردیں گے ،سٹیل مل کی مالیت کاتخمینہ60سے 80ارب روپے جبکہ اس کوچلانے کے لیے 50کڑور ڈالر درکار ہوں گے،ہنڈا کی پیداور کم ،اس نے بکنگ زیادہ کی،جی ایم کاپاکستان میں پلانٹ نہیں جبکہ وہ اس کی تشہیر کررہی ہے۔ پیر کو قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوار کا اجلاس چیرمین ساجد حسین طوری کی سربراہی میں شروع ہوا۔ممبرکمیٹی ناصر خان موسی ضیاء، صاحبزادہ صبغت اللہ ،اسامہ قادری، محمد اکرم، ساجدہ بیگم،سیدمبین احمد،شندانہ گلزارخان،عالیہ حمزہ ملک،علی گوہرخان ،ریاض الحق،سیدمصطفی مہمند،مہرارشداحمدخان اورسیکرٹری وزاعت صنعت وپیدودیگرحکام نے شرکت کی۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت حامد عتیق سرور نے کہاکہ سٹیل مل پلانٹ کی 60 سے 80 ارب ڈالر ویلیو ایشن ہوئی ہے، اسٹیل ملز کو دوبارہ چلانے کیلئے 50 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔کمیٹی کوڈی جی پرائیویٹائزیشن افتخار نقوی نے سٹیل مل کی نجکاری کے حوالے سے کمیٹی کوبتایاکہ سٹیل مل29دسمبر2020کو نجکاری کافیصلہ کیاگیا 1228 ایکڑزمین لیز پر نئے آنے والے جو سٹیل مل
لے گا اس کو دی جائے گئی جبکہ کل 19ہزار ایکڑ زمین ہے۔جون کے تیسرے ہفتے میں سٹیل مل کی نجکاری کے لیے اشتہار دیں گے۔ممبرکمیٹی ناصر موسی نے کہاکہ نجکاری کا عمل اتنا سست کیوں ہے۔ حکام نے کہاکہ نجکاری کا عمل سست ہے 2015سے بند تھی 2018میںسٹیل مل کونجکاری لسٹ سے ڈی لسٹ کیا گیا۔قانونی تقاضہ پورے
کرنے میں وقت لگا۔نئی کمپنی بنائی جارہی ہے جس کاسٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ نام رکھا جائے گا۔ہم چاہتے ہیں کہ سٹیل مل چلے۔ڈاکٹر افتخار نقوی ڈی جی نجکاری کمیشن نے کہاکہ19 ہزار ایکڑ سٹیل مل کی زمین ہے،ٹرانزیکشن کمیٹی نے 1228 ایکڑ اراضی نئے انوسٹرکو دینے کی سفارش کی،1228 ایکڑ زمین کیلئے ایک
نئی کمپنی بنائی جائیگی،سٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے نئی کمپنی بنا رہے ہیں،جون کے آخری ہفتے تک انوسٹرز کیلئے اظہار دلچسپی کا اشتہار جاری کریں گے، 2015 سے مل بند پڑی، 2018 میں نجکاری لسٹ سے ڈی لسٹ کیا، جون 2019 میں بحالی پر دوبارہ کام کا کہا گیا،سٹیل مل کی مشینری پرانی ہے، ایک ملین میٹرک
ٹن تک پہلے سال پروڈکشن کا ہدف رکھا گیا ہے، دوسرے سال 2 اور تیسرے سال 3 ملین میٹرک ٹن سٹیل مل بحالی پر ہدف ہے،اس وقت تک چار کنثورشیم سٹیل مل میں دو چینی، ایک روسی اور ایک کورین دلچسپی ظاہر کی ہے،سٹیل مل کی ایک نئی بیلنس شیٹ تیار ہونے جا رہی ہے اس پرکسی قسم کا کوئی چارج نہیں ہوگا،پاکستان سٹیل
مل کے ہر پلانٹ اور مشینری کی ایویلیو ایشن ہوئی ہے۔نئی کمپنی پر کوئی قرض نہیں ہوگا۔ممبرکمیٹی ناصر خان موسیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت سے لیز کا مسئلہ حل کئے بغیر تو کوئی پارٹی نہیں آئے گی پہلے سندھ حکومت کے ساتھ مسئلہ حل کریں۔حکام نے کہاکہ نئی کمپنی کے زیادہ تر شیئر فروخت کریں گے۔ممبرکمیٹی مبین احمد نے کہاکہ
سٹیل مل کی نجکاری کی منظوری ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود دوسال کے کوئی کام نہیں ہواہے ہر سال خسارہ ہورہاہے۔اس مسئلہ کو حل کرنا ہے بتایا جائے مزید کتنا عرصہ اس مسئلے کو حل کرنے میں لگے گا۔حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ سٹیل مل کی نجکاری کے حوالے سے فنانشل ایڈوائزر (مالی مشیر)تعینات کردیا گیا ہے اور وہ کام
کررہاہے جون کے تیسرے ہفتہ میں اشتہار جاری کررہے ہیں سٹیل مل کے اثاثوں کاتخمینہ لگالیا گیا ہے سٹیل مل کے بورڈ نے اس کی منظوری دے دی ہے سٹیل مل کا کل 60سے80ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے بعد 50کڑور ڈالر سٹیل مل کو چلانے میں لگیں گے سٹیل مل کے آدھے ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے اور باقی
کے لیے عدالت میں کیس کیا ہواہے عدالت اجازت دے گی تو باقی کو بھی فارغ کر دیں گے۔ممبرکمیٹی اسامہ قادری نے کہاکہ سٹیل مل کی نجکاری سے پہلے ملازمین کا مسئلہ حل کیا جائے 19ہزار ملازمین بے روزگار ہوں گے۔حکام نے بتایا کہ ملازمین کو مراعات اور قانونی تقاضے پورے کرکے نکالاجارہا ہے۔ممبرکمیٹی ریاض الحق نے
کہاکہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ سٹیل مل کو کس ٹیکنالوجی سے تبدیل کریں گے۔حکام نے کہاکہ اب جو سٹیل پلانٹ لگ رہے ہیں وہ 100ایکڑ میں لگ جاتے ہیں مگر پرانی ٹیکنالوجی 12سوایکڑ زمین پر پھیلا ہواہے۔ممبرکمیٹی علی گوہر خان نے کہاکہ اسد عمر نے پہلے سٹیل مل پر سیاسی باتیں کئیں کہ ہم آپ کو نہیں نکالیں گے
مگر حکومت میں آتے ہی ان کو نکالنے کا فیصلہ کیا۔سی پیک کا منصوبہ کولڈ سٹوریج میں لگ گیا ہے صنعتیں لگنا تھیں مگر وہ نہیں ہوا۔ سی پیک کے منصوبوں کو لگایا جائے اور انڈسٹریز اور صنعتیں لگائی ہیں۔رکن کمیٹی عالیہ حمزہ نے کہاکہ جب سے ہم حکومت میں آئے سٹیل مل ملازمین کو تنخواہوں کا ایشو نہیں آیا، وزارت صنعت و
پیداوار حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ سٹیل مل کے ذمے اسوقت تقریبا 260 ارب روپے واجبات ہیں، 65 ارب سوئی، 90 ارب حکومت پاکستان، پانی و دیگر اداروں کے بھی واجبات ہیں، بلوچستان کا کوئلہ سٹیل مل میں استعمال ہو سکتا ہے ہم حکومت بلوچستان کیساتھ بھی رابطے میں ہیں،سٹیل مل سیکورٹی انچارج نے کمیٹی کوبتایاکہ سٹیل مل
کی سیکیورٹی کیلئے 90کل گارڈز ہیں جن میں 80ایک وقت میں کام پر ہوتے ہیں 35فیصد دیوار نہیں ہے چور ہم پر فائرنگ کرتے ہیں پولیس اور رینجر والے تعاون نہیں کررہے ہیں۔چوری ہورہی ہے مگر جب تک سیکورٹی کی کمی پوری نہیں ہوتی مسئلہ حل نہیں ہوگا، نئے گاڑیوں کودرپیش مسائل کے حوالے سے وزارت صنعت وپیداور کے
حکام اورانجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ(ای ڈی بی) نے کمیٹی کو بتایاکہ نئی آٹو پالیسی بنا رہے ہیں جو آدمی پیسے لیکر بکنگ کرے گا اگر وہ 60 دن میں ڈیلیوری نہیں کریگا تو کائی بور پلس تھری فیصد کنزیومر کو کمپنی ریٹرن کریگی،ایم جی کی گاڑیاں درآمد کرنے والی کمپنی الگ ہے اور جس کوپاکستان میں گرین فیلڈ کا لائسن لیا ہے وہ
الگ ہے،ہنڈا کی استدادکار کم ہے جبکہ انہوں نے 5سو سے زیادہ لوگوں سے بکنگ کرائی ہے اس کے ساتھ ایم جی موٹرز غلط تشہیر کررہی ہے ان کاپاکستان میں پلانٹ نہیں ہے جبکہ وہ اس کی تشہیر کررہے ہیں کہ ہمارے پلانٹ میں گاڑیاں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ممبرکمیٹی ناصر خان موسیٰ نے کہاکہ ٹویوٹا نے کہاکہ 1منٹ میں ایک گاڑی نکلتی
تھی اون کا مسئلہ اس وقت ختم ہوگا جب کمپنی اپنی پروڈکشن کے مطابق کام کریگی،کمیٹی نے اگلے اجلا س میں ایم جی کی جھوٹی تشہیر اور عوام کو گمراہ کرنے کیخلاف کمیٹی نے مسابقتی کمیشن کو اگلے اجلاس میں طلب کرلیا،پلانٹ لگایا نہیں مگر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔ارکان کمیٹی نے کہاکہ گاڑی کی آن لائن بکنگ ہونی چاہیے،
جس گاڑی پر اون چل رہا ہے اس سے بات کریں کہ اگر ہزار گاڑی کی ڈیمانڈ ہے تو پانچ سو کیوں پروڈکشن ہے،کسٹمر کو پرائس گارنٹی دیدی جائے تو لوگ چھ ماہ بھی انتظار کریں گے۔ ای ڈی بی حکام نے کہاکہ اون منی سپلائی چین کا ایشو ہے نئی آٹو پالیسی میں گاڑیوں کی آن لائن بکنگ کی شرط ڈال رہے ہیں، ایم جی گاڑی پر 9
لاکھ اون منی چل رہی ہے، یکم جنوری کو ایم جی نے گرین فیلڈ کا سٹیٹس لیا،ایم جی کا جب پلانٹ بنے گا تو سی کے ڈی کی اجازت ہوگی، اراکین کمیٹی نے کہاکہ ایم جی کا معاملہ مسابقتی کمیشن کو بھیجا جائے، ایم جی غلط مارکیٹنگ کیوں کر رہی ہے، ایم جی نے جو بکنگ کی وہ لوگوں کو ڈیلیور نہیں کیا،مسابقتی کمیشن کے پاس
اختیارات ہیں وہ اس معاملے کو دیکھ سکتے ہیں، کمیٹی کی طرف سے آئندہ اجلاس میں ایم جی و دیگر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو بلا لیا گیا۔ رکن کمیٹی ریاض الحق نے کہاکہ ایم جی گاڑیوں میں انڈر انوائسنگ ہوئی،کمرشل امپورٹ میں گرین فیلڈ سٹیٹس تو نہیں تھا، اسکی انوسٹی گیشن ہونی چاہیے۔