اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے حکومت کی معاشی ترقی کے دعوے پر پھر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ 2018ء میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 12 فیصد پر تھا۔ایک بیان میں محمد زبیر نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی اشاریے پر تبصرہ کیا ہے۔انہوں
نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب ملکی تاریخ میں کم ترین یعنی منفی 9 اعشاریہ 4 فیصد پر ہے۔سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کے ترجمان نے کہا کہ 2018ء میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 12 فیصد پر تھا۔انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک اور معاشی اشاریہ خراب صورتحال سے دوچار ہے۔محمد زبیر نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب موثر ٹیکس مینجمنٹ کا اہم اشاریہ ہوتا ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین نے واضح کیا ہے کہ عوام پہلے ہی مہنگی بجلی خرید رہے ہیں ،مستقبل قریب میں بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے ،پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول اور توانائی کے شعبے کی بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ معاشی بہتری کا عکاس ہے،آئندہ بجٹ میں زرعی شعبے کیلئے مراعات دیں گے، ٹیکس دینے والوں کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیاجائیگا، ایف بی آر کی جانب سے ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کیلئے یونیورسل سیلف اسیسمنٹ اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کا نظام لایا جائیگا،پاکستان نے پہلی بار11 ماہ میں 4 ٹریلین روپے سے زائد کاریونیوحاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی،1960 کی دہائی کے بعد پہلی بارکسی حکومت نے معیشت کیلئے جامع اورپائیدارروڈمیپ ترتیب دیاہے، آئندہ مالی سال میں 5800 ارب
روپے کے محصولات جمع کرنے کی کوشش کی جائیگی،خصوصی اقتصادی زونز میں 1.5 فیصد ٹرن اوورٹیکس کا اطلاق نہیں ہوگا،زراعت، صنعت، ویلیوایڈڈ شعبہ اورآئی ٹی کو مراعات دی جائیگی،گردشی قرضے کابتدریج خاتمہ کیاجائیگا۔اتوارکوانسٹی ٹیوٹ فارپالیسی ریفارمز آن لائن کے زیراہتمام نئے مالی سال کے بجٹ سے متعلق
ویبینارسے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ گزشتہ حکومت کے اختتام پرپاکستان کاحسابات جاریہ کاخسارہ 20 ارب ڈالرکے قریب تھا،روپیہ زائدالقدرتھا، برآمدات کم ترین سطح پر تھیں، ملک کوبھاری مالیاتی خسارہ کاسامناتھا،زرمبادلہ کے ذخائرایک سے لیکرڈیڑھ مہینہ کی درآمدات کیلئے کافی تھے، گردشی قرضہ آسمان
کوچھورہاتھا اوراس میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا،اس پس منظرمیں نئی حکومت نے اختیارات سنبھالے، دوست ممالک نے پاکستان کے ساتھ معاونت کی تاہم وہ ضروریات کے مطابق نہیں تھی،ایسے میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ رجوع کیا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان نے ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کئے تاہم بین
الاقوامی حالات کے مطابق اس وقت نرم شرائط پرپاکستان کومالیاتی معاونت فراہم کی گئی، اس مرتبہ پاکستان نے مشکل حالات اورشرائط کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام لیا،انہوں نے کہاکہ جب شرح سود13.2 فیصدہو اور کور انفلیشن 7فیصد ہو توایسے میں مسائل پیداہوتے ہیں، اس دوران کووڈ۔19 کی وبا نے صورتحال کومزید مشکل
بنادیا اوراس سے بڑھوتری کاعمل متاثرہوا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکومت نے کووڈ۔ 19 سے متاثرہ معیشت کی بحالی اوربڑھوتری کیلئے 1240 ارب روپے سے زائد کامالیاتی پیکج دیا، اس پیکج کے تحت وبا کے دنوں میں انسانی زندگیوں اورروزگارکوبچانے میں توازن قائم رکھاگیا، احساس پروگرام کے
تحت معاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کونقدامدادفراہم کی گئی، چھوٹے اوردرمیانہ درجہ کے کاروبارکوکیش کے مسئلہ سے بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے، وزیراعظم عمران خان نے تعمیرات کی صنعت کیلئے خصوصی پیکج دیا، اس صنعت سے درجنوں دیگرصنعتیں اورشعبے منسلک ہیں، اس پیکج کے نتیجہ میں
ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت کے اقدامات سے معیشت بحال ہورہی ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 9 فیصداضافہ ہواہے، ہماری برآمدات بڑھ رہی ہے، خدمات کاشعبہ ترقی کررہاہے، سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں ریکارڈاضافہ ہواہے، ہائوسنگ اورتعمیرات کے شعبہ میں اضافہ ہورہاہے،
محصولات اکھٹاکرنے میں نمایاں اضافہ ہواہے اورپاکستان نے پہلی بار11 ماہ میں 4 ٹریلین روپے سے زائد کاریونیوحاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہی اشاریوں کی بنیادپربڑھوتری کی شرح ہدف سے زیادہ ہوئی ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اگلامرحلہ جامع اورپائیداربڑھوتری کاتسلسل ہے، ہماری کوشش ہے کہ بڑھوتری کاعمل
مسلسل جاری ہے۔ 12 مختلف شعبوں میں ماہرین کی مشاورت سے اقتصادی حکمت عملیاں وضع کرنے کیلئے حکومت نے اقتصادی مشاورتی کونسل کوفعال بنادیاہے، 1960کی دہائی کے بعد پہلی بارکسی حکومت نے اتناجامع اورپائیدارروڈمیپ ترتیب دیاہے۔انہوں نے کہاکہ محصولات میں اضافہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، اس
وقت جی ڈی پی کے لحاظ سے ریونیواکھٹاکرنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہے، یہ بہت کم شرح ہے جس میں اضافہ کیاجائیگا، حکومت نے ریونیومیں اضافہ کیلئے اقدامات کئے ہیں اوراس کے نتیجہ میں پہلی بار مالی سال کے 11 ماہ میں 4 ہزارارب روپے سے زائد کی محصولات کاحصول ممکن ہوا، آئندہ مالی سال میں 5800 ارب
روپے کی محصولات اکھٹاکرنے کی کوشش کی جائیگی۔اسی طرح ترقی اوربڑھوتری کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کاحجم 900 ارب روپے تک بڑھایا جائیگا، نجی شعبہ کی شراکت اورمعاونت سے پراجیکٹس شروع کئے جائیں گے، زراعت ایک اورشعبہ ہے جہاں حکومت نے اپنی توجہ
مرکوز کی ہے، یہ بات افسوسناک ہے کہ ماضی میں پاکستان اشیاخوراک برآمدکررہاتھا اوراب درآمدکررہاہے، حکومت اس رحجان کوواپس کرنے پرتوجہ دے گی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پورے زرعی شعبہ کے چین پرتوجہ ضروری ہے، حکومت نے اس شعبہ میں بڑھوتری اورترقی کیلئے ایک متحرک اورفعال منصوبہ بنایا ہے جس کے
تحت زرعی پیداوار اوراصلاحات پرتوجہ دی جائیگی اورشعبہ کیلئے مراعات اورترغیبات دی جائیگی۔برآمدات میں اضافہ بھی ہماری ترجیح ہے، خدمات،ہائوسنگ اورای کامرس کو مراعات دی جارہی ہے، اسے معیشت کودستاویزی بنانے کی کوششوں میں مددملے گی اورریونیومیں اضافہ ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ بجلی اورتوانائی کے شعبہ میں
استحکام لایاجارہاہے، یہ ایک بڑامسئلہ ہے، اس وقت گردشی قرضہ کا حجم 2.3 ٹریلین روپے کے قریب ہے، گردشی قرضہ کے حجم میں بتدریج خاتمہ کیاجائیگا، یہ ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت اختراعی طریقے اختیارکرے گی۔ شوکت ترین نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے عزم کیا ہے کہ مستقبل قریب میں
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاجائیگا کیونکہ لوگوں پرپہلے سے مہنگی بجلی کابوجھ ہے،اگرچہ کم یونٹ استعال کرنے والے صارفین کوتحفظ فراہم کیاگیاہے تاہم مڈل کلاس کہاں جائے۔ انہوں نے کہاکہ قیمتوں میں اضافہ پرقابو پانا ہوگا،مہنگائی میں اشیا خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اہم ہے، جب تک ہم زرعی پیداوارمیں اضافہ اورمڈل
مین کے کردارکوکم نہیں کریں گے مہنگائی پرقابونہیں پاسکیں گے،حکومت کسانوں کوبہترقیمت کیلئے وئیرہاوسز اوکولڈسٹوریجز تعمیرکرے گی تاکہ کسانوں کواپنی فصل ہول سیل مارکیٹ تک پہنچانے کیلئے براہ راست رسائی دے جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ انتظامی کنٹرول پربھی توجہ دے جارہی ہے، پرائس مجسٹریٹس کے نظام کوپرویز
مشرف کے دورمیں ختم کیاگیاتھا، اس کودوبارہ بحال کرنے پرغورہونا چاہئیے۔انہوں نے کہاکہ حکومت ٹریکل ڈاون طریقہ کارپریقین نہیں بلکہ اس کی بجائے نچلی سطح سے اوپرکی طرف اقتصادی ترقی پریقین رکھتی ہے، اس طریقہ کارکے تحت 40 لاکھ سے لیکر60 لاکھ کم آمدنی والے گھرانوں کومالی ، تکنیکی تربیت اوردیگراقدامات
سے معاونت فراہم کرکے انہیں اپنی آمدنی میں اضافہ کاموقع فراہم کرنا ہے۔آمدہ بجٹ کے حوالہ سے انہوں نے کہاکہ محصولات کے ہدف میں ایک ہزارروپے کامزیداضافہ کیاجائیگا، ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیاجائیگا، ایف بی آر کی جانب سے لوگوں کوہراساں کئے جانے کا تدارک ہوگا کیونکہ بہت سارے لوگ شکایت کررہے ہیں کہ وہ ٹیکس نیٹ
میں اسلئے نہیں آنا چاہتے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے پھرانہیں ہراساں کیاجائیگا،اسلئے بجٹ میں یونیورسل سیلف اسسمنٹ کا اعلان ہوگا،آبادی کے 3 سے 4 فیصد حصہ کاتھرڈپارٹی آڈت ہوگا، اس عمل میں ایف بی آر کاکوئی اہلکارحصہ نہیں لیگا، لوگ ایف بی آر کی ہراسمنٹ سے محفوظ ہوں گے، اگر ایسا ہوتا ہے
تولوگوں اورتاجروں پربھی لازم ہوگا کہ وہ ٹیکس اداکرے کیونکہ حکومت کے پاس یوٹیلیٹی بلزکی ادائیگی اوردیگرذرائع سے معلومات موجود ہوگی،حکومت ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی اورقابل ٹیکس ہونے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والوں کوجیل بھیجا جائیگا۔ہمیں یقین ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے
زریعہ ریٹیل بزنس کے سیلز ٹیکس کے حصول کو وسعت دی جاسکتی ہے، اس وقت مارکیٹ میں 80 ہزارکے قریب ہیں جس میں صرف 10 ہزارکے قریب ایف بی آرسے منسلک ہیں، ان سب کو نظام سے منسلک کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ پیداواری شعبہ، برآمدات اورزرعی شعبہ کو بھی مراعات دی جائیگی،مختلف پیداواری شعبہ
جات کو مراعات اورترغیبات کی ذمہ داری وزارت تجارت کودی جائیگی، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔خصوصی اقتصادی زونز کے زریعہ برآمدی شعبہ کومراعات دی جائیگی، ان زونز میں 1.5 فیصد ٹرن اوورٹیکس کا اطلاق نہیں ہوگا، ویلیوایڈڈ شعبہ اورآئی ٹی کو مراعات دی جائیگی، اس سال آئی ٹی کی برآمدات 2 ارب ڈالرہے، 2023
تک اس شعبہ کی برآمدات کو 8 ارب ڈالرتک پہنچایاجائیگا، ہمیں آئی ٹی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بالخصوص برآمدی شعبہ میں ایف ڈی آئی میں اضافہ ضروری ہے، انسانی وسائل کی ترقی پربھی توجہ دی جائیگی وزیراعظم عمران خان اس شعبہ میں 4 گنا بڑھوتری
کی خواہش رکھتے ہیں، مالیاتی شعبہ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں، اس وقت پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ کاحصہ 33 فیصد ہے اوریہ 16سے 17 فیصد معاونت فراہم کررہاہے،دنیا کے دیگرممالک کے مقابلہ یہ بہت کم ہے، اس میں اضافہ ضروری ہے، ڈیپازٹس اورقرضوں کی شرح میں بھی عدم مساوات ہے، حکومت پراجیکٹ اوربنیادی ڈھانچہ پرتوجہ دے گی۔