کفار مکہ کے مظالم کے بعد جب عبیداللہ بن جحش اور ان کی اہلیہ حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان نے بھی حبشہ ہجرت کی۔اس وقت اصمحہ النجاشی بادشاہ تھا ۔ نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا حالانکہ قریش نے شاہ نجاشی کے پاس ایک وفد بھیجا کہ انکے مجرموں انکے حوالے کردیا جائے ۔یہ لوگ حبشہ پہنچے توپہلے تمام پادریوں سے ملے اور تحفے وتحائف پیش کیے اور مقصد کی تکمیل کے لیے ان کوہموار کر لیا لیکن شاہ حبشہ نے
عدل سے کام لیا اور مسلمانوں کو واپس نہیں کیا ۔مستند روایت ہے کہ حبشہ پہنچ کر عبیداللہ مرتد ہو کرنصرانی ہو گئے۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں تو عبیداللہ نے انھیں چھوڑ دیا۔ ۷ھ میں سرکار دوجہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےنکاح کا ارادہ کیااور حضرت عمرو بن امیہ ضمریؒ کوپیام دے کر حبشہ روانہ فرمایا۔شاہ حبشہ نجاشی نے یہ پیام سنا تو اس نے کہا کہ وہ پہلے حضرت ام حبیبہؓ کی رضامندی معلوم کرے گا کیونکہ یہ اسکے عدل کا تقاضا ہے ۔ لہذااس نے اپنی باندی ابرہہ کے ذریعے سے حضرت ام حبیبہؓ کی مرضی معلوم کی اور نکاح کی اجازت دی ۔ پھر حضرت جعفر بن ابوطالبؓ اور دیگر مہاجرین حبشہ کو جمع کر کے آپؐ سے ان کا نکاح پڑھایاگیا۔ آپؐ کی طرف سے چا ر سو دینار بطور مہربھی ادا کیے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کو اپنا وکیل مقررکیا، انھوں ہی نے دلہن کی طرف سے قبولیت کے کلمات کہے اور مہر کی رقم وصول کی۔طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عثمان بن عفان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وکیل بنے۔ نجاشی کی ملکاؤں نے حضرت ام حبیبہؓ کو خوشبو کے تحائف دیے۔