لاہور( این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور سابق وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے درمیان سی پیک منصوبے کے حوالے سے ٹوئٹر پر مکالمہ ہوا ۔احسن اقبال نے سوال کیا کہ سی پیک میں سعودی عرب کو شامل کرنے سے قبل کیا چین کو اعتماد میں لیا گیا؟ ۔ جس کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ سی پیک میں سعودی عرب کو شراکت دار بنانے پر
چین کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔سی پیک میں توسیع پاکستان اور چین کے مفاد میں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان معاشی سرگرمی کا مرکز بنے گا، تاریک دور ختم ہوگیا۔علاوہ ازیں ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ بھارت نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان طے شدہ ملاقات منسوخ کر کے منفی سوچ کا ثبوت دیا ہے، ہم نے مذاکرات کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن بھارت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، عالمی سطح پر بھارت کا چہرہ بے نقاب اور پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوا ہے، بھارت کو یہ گلہ رہتا تھا کہ پاکستان کی فوج اور سول حکومت کی پالیسیاں مختلف ہیں لیکن ہماری حکومت اور فوج کی ایک سوچ ہے، اگر اب ہم آپ کی طرف امن کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو یہ موقع ہے جہاں پر امن کی بات کو آگے بڑھانا چاہیے۔پہلی دفعہ یہ ہوا ہے کہ ان کی قلعی کھل گئی ہے۔ ہم امن کی تالی بجانا چاہتے ہیں ہم اپنا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، بھارت نے پھر اپنا ہاتھ کھینچا ہے، وزیراعظم نے حلف لینے سے پہلے اپنی تقریر میں کہا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں ہم دو قدم بڑھائیں گے، ہم نے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں کپل دیو، نجوت سدھو اور گواسکر کو مدعو کیا لیکن نجوت سدھو یہاں آیا۔ اس کے ساتھ بھارت میں جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آرمی چیف نے یاتریوں کی سہولت کے لئے کرتارپور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھارتی پنجاب کی سکھ کمیونٹی کے لئے بڑا اقدام تھا۔ میں نے بھی اپنے انٹرویوز میں کہا کہ ہم اس بارڈر کو کھولنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے زور دیا تھا کہ پاک بھارت وزرائے خارجہ
کی ملاقات ہونی چاہیے، جس کو کل بھارت نے مان لیا کہ اس موقع پر ملاقات ہوگی لیکن لگ رہا ہے کہ ہندوستان کی حکومت تقسیم کا شکار ہے، آدھے لوگ مذاکرات کے حامی ہیں اور آدھے شدت پسند لوگ مذاکرات نہیں چاہتے، وہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کے بعد امریکی وزارت دفاع کا اہم بیان سامنے آیا کہ وہ
افغانستان میں پاکستان کو اہم شراکت دار سمجھتے ہیں اور وہ اس کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنی سوچ تبدیل کی ہے، اگر بھارت اپنی سوچ تبدیل نہیں کرنا چاہتا تو یہ اس کی مرضی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں دو طبقات ہیں، دونوں ممالک میں ایک طبقہ چاہتا ہے کہ حالات پر معمول پر رہیں جبکہ دوسرا طبقہ اس کا حامی نہیں ہے۔ قیادت کا کام ہے کہ وہ کن طبقات
کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور کن طبقات کو نظر انداز کرتی ہے، ہم 70 سال سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم کی عظمت کے لئے لاکھوں لوگ شہید ہوئے ہیں، ہمارے لئے اپنے ملک کی عزت و احترام سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام پالیسی سازی ہے۔ وزیراعظم نے حالات کو معمول پر لانے کی پالیسی دی ہے، پاکستانی معتبر قوم ہیں، بھارت میں انتخابات قریب ہیں،
وہاں پاکستان مخالف نعرہ بکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے گوادر اور کراچی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گے، ان دو بندرگاہوں کی کنیکٹیویٹی سے دیگر بندرگاہوں پر انحصار کم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمیں جنگ کرنی ہے یا ان کا مستقبل بہتر بنانا ہے۔ عمران خان ترکی،
بھارت اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ملکی سطح پر بات کرتے ہیں جبکہ نواز شریف جندل جیسے ارب پتیوں سے رابطے رکھتے ہیں، جب آپ اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی سوچ مصالحانہ اور امن پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کی طے شدہ
ملاقات جو منسوخ کی ہے اس کو دنیا دیکھ رہی ہے، بھارت کے اندروتی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں، اس اقدام سے پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوا ہے۔ پاکستان آج تاریخ کی درست راہ پر کھڑا ہے، دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان امن کا ہاتھ بڑھا رہا ہے، بھارت اسے جھٹک رہا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی جاتی تھی، یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ ہم امن کے ساتھ رہیں گے،
ہم بھارت کے امن پسندوں سے کہیں گے کہ وہ اپنی حکومت کا کردار دیکھیں اور اس کی سوچ کی مذمت کریں۔ انہوں نے کہا کہ کرتار پور سرحد کے معاملے پر بھارتی پنجاب اور دہلی کے درمیان نوک جھونک چل رہی ہے، کرتارپور کھلنا بھارتی پنجاب کے عوام کے مفاد میں ہے، ہم پوری طرح تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ بارڈر کھول کر مذہبی عبادات کی ادائیگی کے لئے آنے والے سکھوں
کو سہولت فراہم کی جائے، ہم نے اس حوالے سے مکمل طریقہ کار وضع کر لیا ہے اور اس حوالے سے انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطہ رہتا ہے اور وہ غیرسرکاری طور پر انہیں اس صورتحال سے آگاہ کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت نے آگے بڑھنا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ گرونانک کے 450ویں جنم دن پر جب سکھ پاکستان آئیں تو انہیں کرتا
رپور بارڈر کے ذریعے سہولت فراہم کی جا سکے۔ وزیراعظم خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ میں اپنا وڑن پیش کر چکے ہیں، پارلیمنٹ اس وقت مالیاتی بل پر کام کر رہی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے فوری واپسی کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے روانہ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سی پیک سے حاصل ہونے والے ثمرات کو دیکھنا ہوگا
کہ یہ بنیادی طور پر کمیونیکیشن کا منصوبہ ہے جن پر خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے جائیں گے، وہاں صنعتیں قائم ہوں گی اور ہمارے لاکھوں لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی۔ سعودی عرب ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار ہے، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، زیادہ لوگ محمد نواز شریف اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت کے درمیان تعلقات سے آگاہی نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کے
ساتھ ہمارے قریبی سٹریٹجک مفادات ہیں اور ان کے ساتھ معاشی مفادات ہیں۔ اس وقت شاہ عبداللہ نے نوازشریف کے معاملے پر مداخلت کی تھی لیکن اب عمران خان ڈیل کرنے والے ا?دمی نہیں ہیں، کوئی عمران خان کو کہے گا بھی نہیں کہ وہ ڈیل کریں۔ نوازشریف اتنے اہم نہیں ہیں کہ وہ ان پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ کیس دو جمع دو کا معاملہ ہے، اس میں آپ نے بتانا ہے کہ آپ کے
پاس پیسے تھے یا نہیں تھے، آپ کے اکا?نٹ بتا رہے ہیں کہ پیسے نہیں تھے، اگر پیسے نہیں تھے تو آپ نے یہ کیسے خریدے؟ نیب کا سیکشن 9 واضح ہے، اگر آپ سرکاری عہدیدار ہیں اور آپ کے پاس پراپرٹی ہے تو آپ کو اس کے ذرائع بتانے ہوں گے۔ سزا معطل ہونے کی مجھے سمجھ نہیں آئی، ہمارے ملک میں سائیکل چور کو تو سزا ملتی ہے مگر جہاز چرانے والا بچ جاتا ہے،
ہمارا قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے جس میں چھوٹی مکھی پھنس جاتی ہے اور بڑی مکھیاں اسے توڑ کر نکل جاتی ہیں۔ نیب کی کارکردگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک کیس سے کسی ادارے کی کارکردگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جسٹس جاوید اقبال نے جب سے یہ کیس سنبھالا ہے، یہ بڑے معتبر لوگ ہیں، دیکھنا ہوگا کہ اس کیس میں کیا سقم رہ گیا،
پراسیکیوٹر اکرم قریشی بھی قابل وکیل ہیں، یہ کہنا کہ نیب نے کوئی کمی چھوڑی ہے درست نہیں ہوگا۔ مریم نواز کو خاتون ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل ہے تاہم اس سے یہ تاثر گیا ہے کہ طاقتور کے لئے قانون مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا آنا جانا لگا رہے گا، اس مقدمے کے دو حصے تھے، دوسرے حصے میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ یہ پیسہ کرپشن کا ہے، انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ پیسہ کرپشن
سے نہیں کمایا اور یہ ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری تھی کہ وہ ثابت کرتا کہ یہ جائزہ پیسے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ آصف زرداری سے سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ پیسے کہاں سے آئے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو بینظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل ہو گا، نواز شریف سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑا ظلم ہے، میں نے ایٹمی دھماکہ کیا، گیارہ سال حکومت کی پھر بھی مجھ سے
سوالات کئے جا رہے ہیں۔ نیب نے ان مقدمات میں ابھی پراسیکیوٹر کو تبدیل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے خاندان کی سیاست ختم ہو چکی ہے، نواز شریف کے جیل سے باہر آنے سے ضمنی انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، پہلے شہباز شریف سیاست کر رہے تھے، اب مریم بھی کر کے دیکھ لیں، سیاست کرنا ان کا حق ہے۔ شانگلہ میں ضمنی انتخابات میں شوکت یوسفزئی پہلے
سے زیادہ بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔ انتخابات میں وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ ملزمان کو واپس لانے کے لئے طریقہ کار طے کیا ہے، اسحاق ڈار کو وطن واپس لائیں گے۔ نواز شریف کا نام جب ہم نے ای سی ایل میں ڈالا تو تنقید کی گئی کہ ہم نے ایسا کیوں کیا ہے لیکن اب وہ جیل سے باہر آ گئے ہیں، اگر ان کا نام ای سی ایل میں نہ ہوتا تو وہ راتوں رات ملک سے باہر چلے جاتے۔
اسحاق ڈار کا ریڈ وارنٹ جاری ہوا ہے، اسحاق ڈار اور حسن اور حسین جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ برطانیہ نے حال میں ایک پاکستانی کے خلاف کارروائی کی ہے۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان حالیہ اعلامیہ پر جلد پیشرفت ہوگی، ہم سوئزرلینڈ سے بھی معاہدہ کر رہے ہیں جس کے بعد ہمیں سوئس بینکوں تک بھی رسائی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ پر بحث چل رہی ہے۔
پاناما کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مغربی ممالک میں معلوم ہوا کہ تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ پیسے لوٹتے ہیں اور یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں، پاکستان کے ہر حکمران کا گھر لندن میں ہے، ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ اس حوالے سے برطانیہ پر اندر سے بھی دبا? ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ اسحاق ڈار اور سابق چیئرمین ایف بی آر نے
بیان دیا تھا کہ 200 ارب ڈالر پاکستان سے باہر گئے ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے ہوا۔ اسحاق ڈار، حسن اور حسین کو وطن واپس لانے کے لئے برطانیہ سے رابطے میں ہیں، برطانیہ کے ساتھ ہمارے عوام کی سطح پر تعلقات ہیں، جو اہمیت کے حامل ہیں، ہمیں امید ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کا پیسہ ہے اور اس حوالے سے برطانیہ ہم سے تعاون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر چیز کو ووٹ کے
تناظر میں دیکھتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جو میرا ووٹر نہیں ہے اسے اٹھا کر پھینک دیں لیکن وزیراعظم نے کہا کہ افغانوں اور بنگالیوں کے معاملے کو انسانیت کے تناظر میں دیکھیں، بچے یہاں پر پیدا ہوئے ہیں، ان کی تیسری نسل ہے، ہم نے ان کو خیموں تک محدود کیا ہوا ہے، ان کے پاس سکول اور روزگار کی سہولت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا پاکستان کی معیشت اور معاشرے میں کوئی کردار ہے،
انہیں سسٹم میں شامل کرنا چاہیے، اس پر سب سے پہلے لبرل پارٹی پیپلز پارٹی نے مخالفت کی۔ اس حوالے سے سب کے لئے یکساں پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ جو پارٹیاں اس کے خلاف ہیں ان سے پوچھا ہے کہ وہ اس حوالے سے بتا دیں کہ کیا کیا جائے، آپ اپنی تیس سالہ حکومت کے دوران ان کو نہیں نکال سکے۔ یو این ایچ سی آر کے قوانین کے تحت ہم انہیں نہیں نکال سکتے،
اعتراض کرنے والی جماعتوں کے پاس اگر اس سے بہتر کوئی پالیسی ہے تو ہمیں بتائیں۔ بعض قومی امور پر تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ذلفی بخاری 2012-13سے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں، پی ٹی آئی کی فنڈ ریزنگ میں حصہ لیا، وہ نمایاں اوورسیز پاکستانیز میں شامل ہیں، انہوں نے برطانیہ میں پارٹی کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں،
ان کا پاکستان میں کوئی بزنس نہیں ہے بلکہ برطانیہ میں ہے، وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں، ہم اوورسیز پاکستانیز کو ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں، ہم نے وزارت اوورسیز پاکستانیز کو فعال کرنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے درمیان ملک کا کردار ادا کرنے کے لئے انہیں یہ عہدہ دیا۔ نواز شریف نے ہمیشہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملایا لیکن وزیراعظم عمران خان
نے نہ ہی رشوت لینی ہے اور نہ ہی کسی کو لینے دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نعیم الحق 22 سال پرانے ساتھی ہیں، عون چوہدری کئی سال سے ان کے ساتھ ہیں، دوستوںکو نوازنے کی بات غلط ہے۔ ابھی ہمیں تھوڑے دن ہوئے ہیں، پنجاب میں بیورو کریسی تبدیل نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرز کا براہ راست خط لکھنا غلط تھا، انہیں اپنے افسران کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی
کو منتخب نمائندوں کے قانونی کام کرنے ہوں گے اور انہیں سیاسی مداخلت قرار دینا غلط ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے لئے یونیورسٹی بنا رہے ہیں، میڈیا کو حقائق پیش کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان خود کفایت شعاری مہم پر عمل کر رہے ہیں، وہ گیارہ سو کنال کا وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر تین بیڈروم کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں 529 ملازمین تھے ان کو چھوڑ کر 4 ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ 103 گاڑیوں کو نیلامی پر لگایا، جن میں سے 61 بک گئی ہیں جبکہ باقی جلد نیلامی ہوگی۔