کابل(این این آئی)افغانستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک میں جہاں حکومت کرونا سے نمٹنے کے لیے مزید استپالوں کے قیام کی کوشش کررہی ہے خواتین نے گاڑیوں کے پرزوں سے کم لاگت کے تحت مریضوں کو آکسیجن فراہم کرنے کیلیے آلات کی تیاری شروع کی ہے۔
غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق سانس لینے کے مصنوعی آلات تیار کرنے والی لڑکیوں کا کہناتھا کہ حکومت کی منظوری کی صورت میں استعمال شدہ آکسیجن کٹ کو 300 ڈالرکی لاگت سے دوبارہ استعمال میں لانے کے قابل بنایا جاسکتا ہے جب کہ اس نوعیت کی نئی مشین 30 ہزار ڈالر میں ملتی ہے۔ایک افغان ٹیکنالوجی کمپنی چلانے والی خاتون رویہ محبوب نے بتایا کہ اس کی ٹیم میں 14 سے 17 سال کی عمر کی پانچ لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ ٹیم مقامی صحت کے پیشہ ور افراد اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ وہ ‘ماسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ایم آئی ٹی)میں بنائے گئے ڈیزائن کی بنیاد پر پروٹو ٹائپ بنا سکے۔ان لڑکیوں کا تعلق ٹیکنیکل طلبا کی ایک بڑی ٹیم سے ہے جو افغانی خواتین کا خواب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مغربی افغانستان کے شہر ہرات سے تعلق رکھتی ہیں جہاں کرونا وائرس نے ہزاروں افراد کو متاثرکیا۔ ہرات میں کرونا پھیلنے کی وجہ ایران سے آنے والے افراد بتائے جاتے ہیں۔2017 میں ان لڑکیوں نے واشنگٹن میں روبوٹکس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے امریکی ویزہ کے حصول کی درخواست دی تھی مگر انہیں پہلے تو ویزہ نہ دیا گیا تاہم بعد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے انہیں امریکی ویزے جاری کیے گئے تھے۔یہ لڑکیاں سانس لینے کے مصنوعی آلات کی تیاری کے لیے افغانستان کی سڑکوں پر زیادہ چلنے والی ٹویٹا کرولا گاڑیوں کے پرزے استعمال کرتی ہیں۔
افغنستان میں جہاں تین کروڑ پچاس لاکھ آبادی کے لیے صرف 300 وینٹی لیٹر دستیاب ہیں۔افغانستان کی وزارت صحت کے ترجمان وحید اللہ میار نے بتایا کہ ماہرین اور انجینیئروں سے ٹیم کی مدد کرنے کو کہا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی بہنوں کی اس کاوش کی تحسین کرتے ہیں ان کی طرف سے سانس لینے کے آلات کی تیاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔