اسلام آباد (این این آئی) پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں فریکونسی الوکیشن بورڈ کی جانب سے اپنے ملازمین کو وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر دس فیصد اڈھاک الائونس دیئے جانے کاانکشاف ہوا ہے جبکہ آڈٹ حکام نے بتایا ہے کہ پی ٹی اے نے وارد کو غیر قانونی طور پر فور جی کا لائسنس دیا ۔
وارد کے پاس نہ ہی فور جی کا سپیکٹرم تھا نہ ہی اس نے فور جی لائسنس نیلامی میں حصہ لیا جس پر کمیٹی کی چیئر پرسن شیری رحمن پی ٹی اے پر برہم پڑیں اور کہاکہ موبائل کمپنیوں نے صارفین کو کافی تنگ کر رکھا ہے ،لوگ فور جی کے پیسے دے رہے ہیں سروس ٹو جی کی آ رہی ہے ،اس موقع پر نیب حکام نے یقین دہانی کرائی کہ نیب معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے، معاملے میں فریکونسی الوکیشن بورڈ، پی ٹی اے اور دیگر ملوث افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا۔ بدھ کو کنونیئر شیریں رحمان کی زیرصدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مواصلات ڈویژن کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا ،ضمنی الائونسسز کی غیر قانونی تقسیم کا انکشا ف ہوا ۔ اجلاس کے دور ان بتایاگیا کہ فریکونسی الوکیشن بورڈ نے اپنے ملازمین کو وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر دس فیصد اڈھاک الائونس دیا۔ کنونئیر کمیٹی شیریں رحمان چیئرمین پی ٹی اے پر برہم ہوگئیں اور کہاکہ معاملے پر ابھی تک کوئی بھی ڈی اے سی نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کا رویہ ناقابل برداشت ہے ،کیبنٹ ڈویژن کے کہنے پر اس آڈٹ رپورٹ کو موخر کیا گیا تھا ۔شیریں رحمان نے کہاکہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی محکمانہ کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوا ۔
آڈٹ اعتراضات پر کابینہ ڈویژن کی تیاری نہ ہونے پر کمیٹی نے اظہار برہمی کیا ۔ایف بی آر کی عدم موجودگی کے باعث آڈٹ اعتراض کو موخر کردیا گیا۔کمیٹی نے کہاکہ ایف بی آر جب موجود ہوگا تو اس آڈٹ اعتراض پر بحث ہوگی ۔اجلاس کے دوران نیپرا کے سال 2015-16 اڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ نیپرا نے پاور جینریشن کمپنیوں کو لائسنس جاری کیا، تاہم فیس کی مد میں 77 ملین روپے تاحال ریکور نہیں کیے گئے۔
نیپرا نے 224 پاور جنریشن کمپنیوں کو لائسنس دئیے ،بارہ کمپنیوں نے لائسنس لیے تاہم پلانٹ نہیں لگایا ۔انہوںنے کہاکہ ان کمپنیوں سے 18 ملین روپے ریکور کر لیے ہیں ، باقی رقم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی کہ معاملہ کی انکوائیری کرکے دو ہفتے میں رپورٹ دیں ۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ پی ٹی اے نے وارد کو غیر قانونی طور پر فور جی کا لائسنس دیا ،وارد کے پاس نہ ہی فور جی کا سپیکٹرم تھا نہ ہی اس نے فور جی لائسنس نیلامی میں حصہ لیا ،اس سے قومی خزانے کو 51 کروڑ 69 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔
وارد کی فور جی سروس کی کوالٹی خراب تھی ۔ پی ٹی اے حکام نے بتایاکہ وارد کی کوالٹی سروس کے حوالے سے صارفین کی جانب سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ، وارد کے پاس صارفین کم تھے اس لیے وہ کم سپیکٹرم پر بھی فور جی چلا سکتا تھا ۔ شیری رحمن نے کہاکہ پی اے سی کو موبائل کمپنیوں کے سپیکٹرم کے حوالے سے بریفنگ دی جائے ،موبائل کمپنیوں کو تھری فور جی لائسنس کے حوالے سے بھی بریفنگ دیں۔ شیری رحمان نے کہاکہ موبائل کمپنیوں نے صارفین کو کافی تنگ کر رکھا ہے ،لوگ فور جی کے پیسے دے رہے ہیں سروس ٹو جی کی آ رہی ہے ۔
نیب حکام نے بتایاکہ نیب معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اس حوالے سے لوگوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں ،جلد اس کا ریفرنس بھی دائر ہوجائیگا ۔ نیب حکام نے بتایاکہ معاملے میں فریکونسی الوکیشن بورڈ، پی ٹی اے اور دیگر ملوث افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا ۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے ملازمین کے پروویڈنٹ فنڈ میں پیسے نہیں دئے ، ملازمین کی تنخواہوں سے فنڈ کی کٹوتی ہوئی ، تاہم پرنٹنگ کارپوریشن نے اپنے حصے کے 71 کروڑ فنڈ میں نہیں ڈالے ۔ پرنٹنگ کارپوریشن حکام نے بتایاکہ ملازمین سے وصول کردہ 940 ملین روپے موجود ہیں ۔ پی سی پی حکام نے بتایاکہ پرنٹنگ کارپوریشن کو 3 ارب روپے کا خسارہ ہے ایم ڈی پی سی پی زاتی کام سے بیرون ملک دورے پر ہیں ۔ پی اے سی نے کہاکہ ایم ڈی پی سی پی واپس آکر معاملے پر پی اے سی کو جواب دیں ۔