لندن(آن لائن) پاکستان سمیت دنیا کے کئی دریاؤں میں اینٹی بایوٹکس کی بے تحاشہ مقدار کا انکشاف ہوا ہے یعنی محفوظ کردہ مقدار سے بھی بعض دریاؤں میں اینٹی بایوٹکس کی بہتات کئی سو فیصد زیادہ ہے۔اس ضمن میں کئے جانے والے عالمی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کینیا، گھانا، نایئجیریا اور یورپ میں آسٹریا وہ ممالک ہے جہاں کے دریاؤں میں اینٹی بایوٹکس کی شرح بہت زیادہ ہے ۔
اور بعض مقامات پر تو یہ مقررہ مقدار سے 300 گنا زائد ہے۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک نے چھ براعظموں میں موجود 72 ممالک کا بھرپور جائزہ لیا ہے جس میں عام استعمال ہونے والی 14 اینٹی بایوٹکس کا دریائی پانی میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 65 فیصد جگہوں پر اینٹی بایوٹکس موجود ہے۔ ان میں بنگلہ دیش کے پانیوں میں 300 گنا تک اینٹی بایوٹکس زائد مقدار میں پائی گئی اور وہاں ’میٹرونائیڈیزول‘ اٹی پڑی تھی۔ یہ دوا جلد اور منہ کے انفیکشن میں کھائی جاتی ہے۔دوسری جانب 711 مقامات میں سے 307 جگہوں پر پیشاب کے امراض میں استعمال ہونے والی ایک اور اینٹی بایوٹک دوا ٹرائی میتھو پرم کا بھی انکشاف ہوا۔ 51 مقامات پر’ سپروفلیکساسِن‘ مرکب محفوظ ترین مقدار سے زیادہ نوٹ کیا گیاتحقیق کا لبِ لباب یہ ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے دریاؤں کا حال برا ہے۔ اب یہ تمام اینٹی بایوٹکس نکاسی آب یا گندے پانی کے پائپوں سے دریا میں مل رہی ہے اور دریا کے پانی کو تباہ کررہی ہیں۔ یورک یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر اور اس رپورٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹر ایلیسٹیئر بوکسیل کہتے ہیں کہ یہ تحقیق ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو پوری دنیا کے اہم دریاؤں میں اینٹی بایوٹکس کی آلودگی کو ظاہر کررہی ہیں۔دریا کا پانی پینے سے اینٹی بایوٹکس ادویہ سے مزاحمت بڑھ رہی ہے اور یہ اتنا بڑا چیلنج ہے کہ اس کے لیے دریاؤں کے انتظامی ڈھانچوں پر کثیر رقم خرچ کرنا ہوگی اور سخت قوانین بنانے ہوں گے ۔