نیویارک(این این آئی)سائنسی وتحقیقی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی بنی نوع انسان کے لیے آخری صدی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ انسانی نسل کو ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی جنگ، وبائی امراض یا پھر زمین کے ساتھ شہابی پتھروں کے ٹکرانے جیسے خطرات لاحق ہیں،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق آکسفورڈ کے فیوچر آف ہیومنٹیز انسٹی ٹیوٹ کے
محقق اینڈرس سینڈبرگ نے کہاکہ بنی نوع انسان کے سامنے معدوم ہونے کا ایسا خطرہ ہے جو پوری کہانی ہی ختم کر دے گا۔20 ویں صدی تک ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم بہت ہی محفوظ جگہ آباد ہیں لیکن اب صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔کچھ محققین کا کہنا تھا کہ اس صدی کے وسط تک کاروباری ماہی گیری کی صنعت کے لیے سمندر میں وافر مچھلیاں نہیں ہوں گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دکانوں میں خریدنے کے لیے کوئی مچھلی، چپس یا فش کری نہیں ہو گی۔کیڑے مکوڑے بھی تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی چڑیوں کی کئی اقسام بھی ختم ہو رہی ہیں کیونکہ ان کی خوراک وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو اب نہیں رہے۔فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ میں محقق فل ٹوریس کے مطابق اگر کوئی تباہی لانے والا بٹن ایجاد کر لیا جائے تو اس بٹن کو دبا کر تباہی مچانے والے لوگوں کی کمی نہیں۔فل کے مطابق ایسے لوگوں سے بھی خطرہ ہے جو انسانوں کی تباہی کی اپنی ہی توجیح رکھتے ہوئے عوامی مقامات پر اندھا دھند گولی باری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو عوامی یا نجی سطح پر سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ان کی تعداد کیا ہو گی؟ ایک تخمینہ کے مطابق، دنیا میں نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد تین کروڑ ہو سکتی ہے اور ان میں سے کوئی بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
گلوبل کیٹاسٹروفک رسک انسٹی ٹیوٹ کے سیتھ بام کے خیال سے ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں غبار فضا میں بہت اونچائی تک جا سکتا ہے۔ یہ غبار کئی دہائیوں تک وہاں رہ سکتا ہیں اور سورج کی روشنی کو روک سکتا ہے۔ایٹمی جنگ کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی کا ہونا، معاشی رکاوٹیں اور آخر میں عالمی ماحولیات پر برے اثرات مرتب ہونا ہیں۔