جاپان (مانیٹرنگ ڈیسک) مومو چیلنج اس وقت امریکا اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک میں حکام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے حالانکہ اب تک ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ واقعی سوشل میڈیا پر یہ خطرناک گیم پھیل بھی رہی ہے یا نہیں۔ یوٹیوب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اب تک حالیہ ویڈیوز میں ایسے شواہد نہیں ملے۔
جن سے معلوم ہو کہ یہ خطرناک چیلنج ویڈیو شیئرنگ سائٹ پر پھیل رہا ہے۔ تاہم جب بھی اس مبینہ چیلنج کی خبریں سامنے آتی ہیں تو ہمیشہ ان کے ساتھ ایک گہرے بالوں اور عجیب آنکھوں والی ایک مخلوق کی تصویر بھی ہوتی ہے۔ اور اب اس مجسمے کے خالق نے آخرکار اس پر خاموشی توڑ دی ہے۔ جاپانی فنکار کائیشیکو ایسو نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ انہوں نے اپنے اس کام کو پھینک دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘بچوں کو یقین کرلینا چاہئے کہ مومو اب مرچکی ہے، وہ موجود نہیں اور اس کا اثر ختم ہوچکا ہے’۔ اصل مجسمہ جسے مدر برڈ کا نام دیا گیا تھا، میں ایک انسانی سر دیا گیا تھا جس پر لمبے سیاہ بال پیشانی پر پھیلے ہوئے تھے، گول آنکھیں گیند جیسی تھیں، منہ کا سائز کافی بڑا تھا اور ناک سپاٹ تھی جبکہ اس کے پیر کسی پرندے کے تھے۔ یہ 2016 میں تیار ہوا تھا اور ٹوکیو کی ایک گیلری میں رکھا گیا تھا۔ اب اسے بنانے والے فنکار نے بتایا کہ یہ مجسمہ انہوں نے ایک جاپانی لوک کہانی سے متاثر ہوکر تیار کیا تھا جو ایک ایسی خاتون Ubume کا تھا جو زچگی کے دوران چل بسی اور بدلی ہوئی شکل میں واپس آئی۔ کائیشیکو ایسو نے بتایا کہ اب وہ مجسمہ باقی نہیں رہا، وہ خراب ہوگیا تھا اور اسے پھینک دیا گیا ہے۔ مومو چیلنج گزشتہ سال واٹس ایپ کے ذریعے سامنے آیا تھا اور اب حال ہی میں برطانیہ میں یوٹیوب کے ذریعے اس کے ابھرنے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ مومو چیلنج میں بچوں کو خود کو اور دیگر کو نقصان پہنچانے والے خطرناک چیلنجز دیئے جاتے ہیں۔ جاپانی فنکار کا اس بارے میں کہنا تھا کہ وہ اس مجسمے کو خوفزدہ کردینے والا ضرور بنانا چاہتے تھے مگر ان کا کبھی بھی ارادہ نہیں تھا کہ کسی کو نقصان پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس مجسمے کو پھینکنے پر انہیں دھمکیاں بھی ملیں مگر انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔