ہنگری(مانیٹرنگ ڈیسک) زیبرا کے جسم پر سیاہ اور سفید دھاریاں کیسے آئیں یہ بات عرصے سے بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس سے قطع نظر اب سائنسدانوں نے اس بات کا جواب جاننے کا دعویٰ کیا ہے کہ یہ دھاریاں کس کام آتی ہیں۔ ویسے دہائیوں سے کچھ سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ
یہ دھاریاں اس چرندے کو درندوں سے بچانے کے لیے کیموفلاج کا کام کرتی ہیں جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ کیڑوں کو دور رکھتی ہیں۔ ہنگری کے سائنسدانوں نے اس معمے کا حل جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ سیاہ و سفید دھاریاں نہ صرف زیبرا کو خون چوسنے والی ہارس فلائی (گھڑ مکھی یا خرمگس) سے تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ مختلف جنگلی قبائل نے بھی اس سے یہ ٹرک سیکھ کر جسم کو رنگ کر خون چوسنے والے کیڑوں کے تکلیف دہ ڈنک سے خود کو بچانا سیکھا۔ اس خیال کو آزمانے کے لیے محققین نے مختلف پتلوں کو ایسی سفید دھاریوں سے رنگ دیا جو کہ دنیا بھر میں قبائلی افراد اپنے جسم پر بناتے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ایسا کرنے پر ہارس فلائی پتلوں سے دور رہیں۔ یہ تجربات ہنگری میں کیے گئے جہاں ہارس فلائی کی متعدد اقسام موسم گرما میں عام ہوتی ہیں اور محققین کے مطابق ان دھاریوں سے روشنی بے ترتیب ہوجاتی ہے جس سے ان کیڑوں کے لیے اپنے ہدف کو دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ رائل سوسائٹی جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق انسانی ماڈل ان خون چوسنے والے کیڑوں کے لیے سفید دھاریوں والے ماڈل کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ پرکشش ثابت ہوتے ہیں۔ ایوٹووس یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ممالیہ جانداروں میں سب سے نمایاں دھاریاں زیبرا میں ہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہارس فلائی کی نظر میں ان کی کشش بہت کم ہوجاتی ہے۔