اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) روشنی کی رفتار تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک سیکنڈ کے اندر 3 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کر سکتی ہے۔ آئن اسٹائن کے نظریے کے مطابق کائنات کی کوئی بھی شے اس رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی۔ روشنی کی اس دنگ کر دینے والی رفتار کے باوجود سورج سے زمین تک روشنی کو پہنچنے میں تقریباً 8 منٹ لگتے ہیں۔
تو اندازہ لگائیں کہ سورج ہم سے کتنے فاصلے پر ہوگا۔ سورج کے بعد جو ستارہ ہم سے سب سے زیادہ قریب ہے، اسے الفا سینچوری کہتے ہیں، جو کہ ہمارے نظامِ شمسی سے تقریباً 4.3 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کائنات میں فاصلوں کا معیار کیا ہے۔ اب اگر آپ کبھی کھلے آسمان میں ستاروں کو دیکھیں تو یاد رکھیے گا جن ستاروں کی روشنی آپ کو نظر آ رہی ہے وہ اپنے ستاروں سے صدیوں پہلے چلنا شروع ہوئی ہوگی جو کہ اب یہاں پر پہنچی ہے۔ ایسے میں ایک سوال جو شاید سب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہوگا وہ ہے، “اتنی بڑی کائنات میں جس میں وقت اور فاصلوں کا معیار صدیوں اور نوری سال میں ہوتا ہے، کیا ہم اکیلے ہیں جو کہ اس کائنات کی پیچیدہ قدرت کو سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ہماری یہ زمین اس پوری کائنات میں واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے؟ اور وہ بھی ایسی زندگی جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو؟ ہمارے بہترین اندازے کے مطابق ہمارے نظامِ شمسی کے سورج کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً 4.6 ارب سال ہو چکے ہیں اور لگ بھگ اتنا ہی عرصہ 4.5 ارب سال زمین کو وجود میں آئے ہوئے ہو چکا ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے اندر ہی ایسے بہت سارے ستارے ہیں جن کو وجود میں آئے ہوئے اس سے بھی کہیں زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ تو بہت ممکن ہے کہ ان ستاروں کے ارد گرد بھی ان کا اپنا نظامِ شمسی وجود میں آ چکا ہوگا اور ان نظامِ شمسی کے سیاروں کو وجود میں آئے ہوئے ہماری زمین کے مقابلے میں بہت عرصہ گزر چکا ہوگا۔ ناسا کے کیپلر مشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی وے میں تقریباً 40 ارب ایسے سیارے موجود ہیں جن کی جسامت ہماری زمین کے جتنی ہی ہے اور جہاں ممکن ہے کہ زندگی وجود میں آ سکتی ہے۔
‘خلائی مخلوق سے رابطہ ممکن’ انسان کو اس کرہ ارض پر تقریباً 2 لاکھ سال ہو چکے ہیں اور ان 2 لاکھ سالوں میں انسان نے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا ہے کہ وہ زمین سے باہر نکل کر مریخ پر اپنے نشان چھوڑ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ناسا کا خلائی جہاز وائجر 1 اس وقت نظامِ شمسی کی حدوں کو پار کر کے ستاروں کے درمیانی خلا (یعنی انٹرسٹیلر اسپیس) میں پہنچ چکا ہے۔
تو ان سب باتوں سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “اگر اتنی بڑی تعداد میں سیارے ملکی وے میں موجود ہیں جو کہ ہماری زمین سے کہیں زیادہ پرانے ہیں تو کیا ان سیاروں پر باشعور زندگی پیدا نہ ہو سکی؟ اگر پیدا ہو سکی تو ہمیں ان کے اثرات (مثلاً تحقیقی سیٹلائٹ) اپنی زمین یا ہمارے نظامِ شمسی کے آس پاس کیوں نظر نہیں آتے؟ کیا کسی سیارے پر زندگی کا تخلیق پانا ایک معجزاتی عمل ہے جو کہ صرف ہماری زمین پر ہی واقع ہوا ہے۔
ایک شماریاتی غلطی (statistical fluke)؟ اس سوال کو ایک مشہور سائنسدان اینریکو فرمی نے اپنے ہم منصبوں سے کچھ اس طرح سے پوچھا، “آخر سب ہیں کہاں؟” اس سوال کو اکثر فرمی کا تضاد یعنی فرمیز پیراڈوکس کہتے ہیں۔ اینریکو فرمی نے یہ مزاحیہ سوال اپنے ساتھیوں سے 1950 میں پوچھا اور اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اس سوال کا جواب دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اور کسی اور زندگی کے آثار کی غیر موجودگی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم ان نظریات میں سے چند پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ زندگی اور خاص طور پر باشعور زندگی (intelligent life) ایک شماریاتی غلطی ہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے زندگی کے تخلیق ہونے کے لیے ایک یا کئی معجزاتی واقعات کی ضرورت ہو جو اتفاقیہ طور سے ہماری ہی زمین میں پیش آئے ہوں۔
لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ صرف ملکی وے کے اندر ہی 40 ارب سیارے ہیں اور ایسا کون سا معجزاتی واقعہ ہوگا جس کے ہونے کا امکان اتنا کم ہو کہ کہیں بھی زندگی پنپنے نہ پائے۔ سائنسدانوں کا ایسے واقعات کی نوعیت پر کوئی خاص سمجھوتہ نہیں ہے لیکن اس معجزاتی واقعے کو اکثر ‘کائناتی لاٹری’ (cosmic lottery) بھی کہتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہماری زمین ان بہت ہی کم سیاروں میں سے ہو۔
(یا شاید واحد سیارہ ہو) جس نے یہ کائناتی لاٹری جیت لی اور یہاں زندگی نے جنم لیا۔ ہر دور کی سب سے کامیاب خلائی فلمیں فرمی کے تضاد کی ایک اور وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے اور سیارے ہیں جہاں پر زندگی تو موجود ہے لیکن انہوں نے ابھی تک سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینیئرنگ میں اتنی مہارت اور کمال حاصل نہیں کیا کہ خلا میں سفر کر سکیں یا خلا میں سیٹلائٹ بھیج سکیں یا کسی اور سیارے سے رابطہ کر سکیں۔
لیکن میرے نظریے میں یہ اتنی ٹھوس وضاحت نہیں۔ جیسے میں نے پہلے کہا، کہ ہمارا سورج ملکی وے کے باقی ستاروں کی نسبت کافی نیا ہے اور اس اعتبار سے ہمارا نظامِ شمسی بھی ابھی کم عمر ہی ہے۔ تو یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ باقی سیاروں کی زندگی (اگر وجود رکھتی ہو) تو ہم سے سائنس اور ٹینکالوجی میں کم تر ہو۔ مگر اس بات کا ثبوت دینا بہت مشکل ہے۔ فرمی کے تضاد کی ایک اور وضاحت یہ دی جاتی ہے۔
کہ شاید کسی باشعور زندگی کا انجام خود اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ حالاں کہ یہ بہت ہی مایوسانہ وضاحت ہے لیکن انسانی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ اتنی نامناسب بھی نہیں لگتی۔ انسان کو اس کرہ ارض پر 2 لاکھ سال ہو چکے ہیں اور ان 2 لاکھ سالوں میں ان گنت جنگیں اس نے اپنے آپ سے لڑی ہیں، دولت کے لیے، وسائل کے لیے، معشوق کے لیے، طاقت کے لیے، اقتدار کے لیے۔
ان جنگوں میں نجانے کتنے قدرتی وسائل ضائع ہو چکے ہیں اور ان گنت انسان اپنی زندگیاں کھو چکے ہیں۔ اس کے باوجود مستقبل قریب میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ انسان اپنی تاریخ سے کچھ سیکھ سکا ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مندد سے اور زیادہ خوفناک اور خون آلود جنگیں چھیڑنے کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔ جیسے کہ آج کل کے حالات بتا رہے ہیں۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں یہاں فرض کر رہا ہوں۔
کہ کسی اور سیارے کے باشعور مخلق کی فطرت بھی انسانوں جیسی ہی ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا نہ بھی ہو۔ لیکن چوں کہ ہم انسانوں کے علاوہ کسی اور باشعور مخلوق کو جانتے اور پہچانتے نہیں ہیں تو اس کے علاوہ ہمارے پاس باشعور مخلوق کی فطرت کی کوئی اور مثال بھی نہیں ہے۔ تو ہم اندازہ یہ لگا رہے ہیں کہ کوئی اور باشعور مخلوق بھی فطرت کے انہی عوامل (پیرامیٹرز) پر بنیاد رکھتی ہے جو انسانی فطرت کی بنیاد ہے۔
چلتے ہیں تو خلا میں چلیے جیسے کہ ایک ہی نوع (specie) کے مختلف گروہ (groups) کے بیچ میں حصولِ وسائل کے لیے مقابلہ کرنا۔ لیکن آخر میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ ایسا ہی ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ باہمی جنگ ریزی ہی وجہ ہو انسانی یا کسی بھی اور مخلوق کے تباہ ہوجانے کی۔ اور بھی ایسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جو انسانی یا کسی اور مخلوق کی تباہی کا باعث بن سکتی ہوں جیسے کہ حادثاتی ماحولیاتی آفات، تجرباتی موسمیاتی آفات، وسائل کا ختم ہوجانا وغیرہ۔ چنانچہ یہ بہت ممکن ہے کہ ایک باشعور مخلوق کا مقدر ہی ہو اپنے آپ ختم ہوجانا۔ جیسے کہ میں نے پہلے وضاحت کی کہ کرہ ارض پر انسان کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً 2 لاکھ سال ہو چکے ہیں جس کے مقابلے میں زمین کو آئے ہوئے 4.6 ارب سال ہو چکے ہیں۔
ان 4.6 ارب سالوں کے اندر انسان کے وجود میں آنے سے پہلے اور بہت سے مخلوق جنم لے چکی ہیں جیسے کہ ڈائنوسار، اور ان تمام سالوں کے اندر زمین پر جتنا ہم اب تک جان پائے ہیں، 5 ایسے قدرتی آفات ہو چکی ہیں جن میں دنیا کی زیادہ تر مخلوقات کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ تو اگر ہم ایک انتہائی سادہ اندازہ بھی لگائیں تب بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کو زمین پر اتنا ٹائم نہیں ہوا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش آنے کا کوئی خدشہ ہو۔
تو یہ بہت ممکن ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی مخلوق کسی اور مخلوق سے تعلق قائم کرے، کوئی قدرتی آفت کے نتیجے میں نیست و نابود ہوجائے، یہاں تک کہ خود انسان بھی۔ ان قدرتی آفات میں موسمی آفات، وبائی مرض، سیارچہ (ایسٹیرائیڈ) کے ہمارے سیارے سے ٹکرا جانا وغیرہ شامل ہے۔ انسان کے بہترین اندازے کے مطابق زمین سے لے کر کائنات کی حدود میں 46.5 ارب نوری سال کا فاصلہ ہے۔
اور کائنات میں مختلف حجم کی 100 ارب کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں کے قریب ستارے ہیں۔ تو حساب لگا لیجیے کہ پوری کائنات میں ایسے کتنے سیارے ہوں گے جو کہ اپنے نظامِ شمسی کے ستارے سے بالکل ٹھیک اسی فاصل پر موجود ہوں جہاں ان کا درجہ حرارت اتنا ہو کہ پانی اپنی آبی شکل میں پایا جا سکتا ہو جس کی وجہ سے شاید وہاں زندگی پنپ سکتی ہو۔ صرف اگر ہماری ملکی وے میں ہی 40 ارب ایسے سیارے ہیں ۔
تو کل کائنات کے اگر بہت کم فیصد ایسے سیارے ہوں تو ایک بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے۔ لیکن ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے میں بھی ہمیں ایسے باشعور زندگی یا صرف زندگی کا بھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ فرمی کے تضاد کی جن وضاحتوں کا ہم نے تجزیہ کیا ہے ان کے علاوہ سائنسدانوں نے کئی اور وضاحتیں بھی پیش کی ہیں۔ مثلاً ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جن سیاروں پر مخلوق رہتی ہیں وہ ہم سے بہت دور ہوں۔
آخر کو ملکی وے ایک بہت بڑی جگہ ہے۔ پر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے سیاروں کی مخلوق اپنا سگنل کچھ اس طرز کا بھیج رہی ہوں جنہیں سننے کی ٹیکنالوجی ابھی انسانوں نے ایجاد ہی نہ کی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے سیارے کی مخلوق جس ٹائم پر سگنل بھیجتی ہوں ہم اس ٹائم پر کسی سگنل کو سن ہی نہ رہے ہوں۔ آخر کار سگنل سننے اور بھیجنے میں وسائل لگتے ہیں اور سگنل نہ تو ہر وقت بھیجا جا سکتا ہے اور نہ ہر وقت سنا جا سکتا ہے۔
اور ایسا بھی بالکل ممکن ہے کہ ایسی مخلوقات ہمارے سگنل سن تو رہی ہوں مگر بھیج نہ رہی ہوں۔ غرض یہ کہ وضاحتیں تو بہت دی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ خارج الارض زندگی کے ہونے کا تو صرف ایک ثبوت چاہیے مگر یہ کہنا کہ وہ نہیں ہیں، شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو۔ میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ ایسی مخلوق کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی بیک وقت خوفناک خیال ہیں۔ اگر کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔
تو ہم اتنی بڑی کائنات میں بالکل اکیلے ہیں۔ اور اگر ایسی کوئی مخلوق ہے اور ہمیں نہیں پتہ کہ کدھر ہے، تو یہ بھی میرے نزدیک اتنی ہی خوفناک بات ہے۔ پیشے اور تعلیم کے اعتبار سے شہباز احمد علوی ماہرِ تھیوریٹیکل فزکس ہیں۔ وہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ ان کی سائنسی تحقیق کا مقصد کونیات اور خلا میں گردش کرنے والی اشیاء کی کششِ ثقل کو سمجھنا ہے۔