اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وقت گزرنے کے ساتھ اہرامِ مصر کے بھیدوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خوفو کے ہرم میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس خلا کا مقصد کیا ہے اور آیا اس کے اندر کوئی چیز بھی موجود ہے یا نہیں کیوں کہ
اس تک رسائی کا راستہ نہیں ہے۔ جاپانی اور فرانسیسی سائنس دانوں نے اہرام پر دو سال تحقیق کر کے اس خلا کا سراغ لگایا ہے۔ اس بارے میں مزید پڑھیے اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھی حل؟ کیا یہ فرعون کی بیٹی کا مقبرہ ہے؟ انھوں نے اس مقصد کے لیے میوگرافی کی تکنیک استعمال کی جس کی مدد سے چٹانوں کی اندرونی ساخت کا پتہ چلایا جاتا ہے۔ خوفو کا ہرم، جسے ہرم الکبیر بھی کہا جاتا ہے، فرعون خوفو کے دور میں 2509 تا 2483 قبلِ مسیح تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی بلندی 460 فٹ ہے اور یہ دنیا کا بلند ترین ہرم ہے۔ خوفو کے ہرم میں تین چیمبر اور کئی راستے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا چیمبر گرینڈ گیلری کہلاتا ہے اور یہ 154 فٹ چوڑا اور 26 فٹ اونچا ہے۔ نو دریافت شدہ خلا گرینڈ گیلری کے عین اوپر واقع ہے اور اس کا رقبہ اسی جتنا ہے۔ پیرس میں واقع ایچ آئی پی انسٹی ٹیوٹ کے مہدی تیوبی نے کہا: ‘ہمیں معلوم نہیں کہ یہ خلا افقی ہے یا ترچھا بنا ہوا ہے، یا آیا یہ ایک ہی کمرہ ہے یا کمروں کا سلسلہ ہے۔ لیکن جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہرم کے اندر اتنا بڑا خلا موجود ہے۔ یہ بہت متاثر کن ہے، اور اب تک (اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں) پیش کیے جانے والے کسی نظریے کے اندر اس کی توقع نہیں تھی۔’ اہرام کو سکین کرنے والا ادارہ سکین پِرامڈ اس قدر محتاط ہے کہ اس خلا کو چیمبر کہنے سے گریز کر رہا ہے۔ خوفو میں کئی کمپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں
اور ماہرین کا خیال ہے کہ ان کا مقصد تعمیر پر پڑنے والے بوجھ میں کمی لانا تھا۔ معروف امریکی ماہرِ آثارِ قدیمہ مارک لیہنر نے سکین پِرامڈ کے کام کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہو سکتا ہے یہ اس قسم کا خلا ہو جسے مستریوں نے گرینڈ گیلری کی چھت پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہو۔’ تاہم سائنس دانوں کی
ٹیم کے سربراہ ہینی ہلال کا خیال ہے کہ یہ خلا اتنا بڑا ہے کہ اس کا صرف بوجھ کم کرنے کے لیے استعمال قرینِ قیاس نہیں ہے۔ ‘ہم اہرام کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرینِ مصر اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے پاس چند نظریات موجود ہیں۔ ہم انھیں ڈیٹا فراہم کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں بتائیں گے کہ اس خلا کا مقصد کیا ہے۔’