اسلام آباد(ویب ڈیسک) سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں سمندروں میں تحقیق کرنے اور کسی بھی قسم کے مرمتی کام کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔آبی آلات بنانے والی کمپنی کونگسبرگ کے رچرڈ ملز نے کہا کہ ‘ہم عام طور پر لوگوں کو سانپوں سے دور رہنے کو کہتے ہیں کیونکہ وہ خوفناک ہوتے
ہیں لیکن اس چیز کو میں خود سانپ کہتا ہوں۔’اور اگر آپ کو سمندری روبوٹ سانپ یا ایلیوم نامی آلے کے بارے میں نہیں جاننا تو آپ اگلے چند پیراگرافس نہ پڑھیں۔’انڈیا کی سب سے بڑی روبوٹ کمپنی کیسے بنی؟’ ایلیوم کے بارے میں میں نے اپنے دوست کو بتایا جس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اسے ایلیوم کے ساتھ تیرنے کی اجازت ہے؟ مجھے بہت اطمینان ملا جب جواب میں کہا گیا کہ نہیں۔ دس سال قبل ناروے میں یونیورسٹی کے پراجیکٹ کی حیثیت سے شروع ہونے والا پروگرام اب کمرشل طور پر بنایا جانے والا پہلا نمونہ بن چکا ہے اور یہ بالکل سانپ کی شکل کا ہے۔ ایلیوم نامی آلہ سمندر کی تہہ میں موجود آلات کی جانچ کر سکے گا اور ان کی مرمت بھی کر سکے گا۔ اس وقت ایلیوم کو سمندر سے تیل نکالنے کی مشینری پر ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس لچک دار، ٹیوب کی شکل کے آلے کے دونوں سروں پر کیمرے اور سینسر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی خاص بات اس کا ڈیزائن ہے جس کی وجہ سے اس آلے کو متعدد کام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس آلے کے ڈیزائن کے سبب یہ تنگ جگہوں میں آرام سے جا سکتا ہے اور تیز لہروں کے باوجود ایک جگہ پر رہتا ہے۔ اس کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ ایلیوم کو آرام سے پانی کے نیچے چھوڑا جا سکتا ہے تاکہ جب کبھی بھی ضرورت ہو اسے استعمال کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ اس سمندری روبوٹ سانپ کو ابھی تک مارکیٹ
میں نہیں لایا گیا ہے لیکن ساؤتھ ہیمپٹن کے اوشین بزنس ٹریڈ فیئر میں اسے نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ خود کار کشتیاں جس طرح سے زمین پر چلنے والی خود کار گاڑیاں کئی لوگوں کے لیے جوش و خروش کا باعث بن رہی ہیں اسی طرح خودکار کشتیاں کے بارے میں بھی کئی لوگ شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ برطانوی کمپنی ای ایس وی گلوبل کے ڈان ہُک کہتے ہیں کہ ‘خودکار کشتیوں کے ہونے سے آپ اعداد و شمار اور معلومات پر توجہ دے سکتے ہیں۔آپ خود زمین پر رہیں یا دور اپنی کشتی میں رہ کر ریموٹ کے ذریعے خود کار کشتی کو سنبھال سکتے ہیں اور معلومات اکھٹا کر سکتے ہیں اور یہ فیصلہ لے سکتے ہیں کہ اس خود کار کشتی کو اور کہا بھیجا جائے۔’ کمپنی ای ایس وی گلوبل کی کہ ریموٹ کنٹرول سے چلائی جانے والی دو خود کار کشتیاں اس وقت ڈیزل جنریٹر سے چلتی ہیں۔ ‘نئے قوانین کے تحت ہمیں خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کس قسم کا انجن استعمال کریں اور اس کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ صاف اور معیاری انجن بنائیں جائیں۔ یہ کارکردگی میں بہتر ہیں اور خاموش بھی لیکن مستقبل میں یہ کام برقی طاقت سے ہو گا۔’ بیٹری بنانے والی کمپنی سٹیٹ کی مصنوعات کو انتہائی کم یا انتہائی زیادہ درجہ حرارت پر طویل عرصے تک کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ لیتھیم سلفر کے مرکب سے بننے والی بیٹری برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی نظر میں ہیں اور اب
سٹیٹ کمپنی کی بنائی ہوئی بیٹری بوٹی کو میک بوٹ نامی سب میرین میں آزمائشی طور پراستعمال کیا جائےگا۔ کمپنی کے افسر پال ایڈورڈز کہتے ہیں کہ لیتھیم آئون کے بعد اب لیتھیم سلفر کا دور آئے گا کیونکہ اِس بیٹری کی مدد سے اسی وزن میں زیادہ طاقت مل سکتی ہے۔’ لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ بیٹری کے کم چلنے کے وجہ سے آبی ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں آہستہ آہستہ ہو رہی ہے تو آپ کو دوبارہ سوچنا ہوگا۔ کینیڈا کی کمپنی ڈیپ ٹریکر کی صدر سام میک ڈونلڈ کے مطابق اس کی وجہ کام پر مکمل طور پر توجہ دینے میں کمی ہے۔ سام میک ڈونلڈ کی کمپنی نے ریموٹ کے ذریعے زیر سمندر چلنے والی گاڑیاں بنائی ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ گاڑی کا انتظام سنبھالنے والا شخص توجہ دینے کے باعث تھک جائے گا۔ ‘آپ سارا وقت سکرین دیکھ رہے ہوتے ہیں اور مختلف قسم کی معلومات کا خیال رکھ رہے ہوتے ہیں اور مسلسل اپنے ہاتھوں اور آنکھوں کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے خود تین یا چار گھنٹے کے بعد اس کام سے وقفہ چاہیے ہوتا ہے۔’ مائیکرو سب میرین پلینٹ اوشین نامی کمپنی ساؤتھ ہیمپٹن کی اس نمائش میں اپنی بنائی ہوئی ننھی سی سب میرین کا نمائش کر رہی تھی جس کی شکل سیپی کے جیسی ہے اور اس کی خاص بات کم گہرے پانیوں میں غول کی شکل میں تیرنا ہے جس کی مدد سے آبی ماحول کی بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایک پائلٹ کئی سب میرینز پر نظر رکھ
سکتا ہے اور یہ اتنی چھوٹے سائز کی ہوتی ہیں کہ ان پر صرف ایک وقت میں پانچ سینسر لگ سکتے ہیں۔ پلانیٹ اوشین کے مینیجنگ ڈائیرکٹر ٹیری سلون نے کہا کہ ‘اگر یہ سب میرینز ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں تو بڑا نقصان نہیں ہو گا۔ زمین پر ان کا وزن صرف پانچ کلو ہے۔’ ٹیری سلون کے مطابق وہ ری سایئکلنگ کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور وہ تمام لوگ جن کو ان کی
کمپنی کی بنائی ہوئی سب میرین ساحل سے ملے وہ اس کے عوض معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘ہم نہیں چاہتے کہ سمندر میں یہ بے مقصد گھومتی رہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو ڈھونڈ کر ہمیں واپس کر دیں جس کے بدلے میں ان کو انعام دیا جائے گا۔’