اسلام آباد(ویب ڈیسک) گوند کتیرا بظاہر کوئی کام کی چیز معلوم نہیں ہوتی لیکن اب اسے بنگلہ دیش اور انڈیا کے کچھ علاقوں میں پانی سے سنکھیا جیسے زہریلے مادوں کی تطہیر اور سینکڑوں ہزاروں افراد کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے
کہ بنگلہ دیش میں سنکھیا کے باعث تقریباً 20 ملین افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ‘انسانی تاریخ کے اس سب سے ہولناک زہر’ سے اب تک لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔سنہ 1940 کی دہائی کے بعد سے بنگلہ دیش میں لاکھوں ‘ٹیوب ویل’ بنائے گئے۔ ملک بھر میں حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے 1970 کی دہائی کے بعد سے سستے اور بیماریوں سے پاک پانی مہیا کرنے کی غرض سے سادہ پمپس متعارف کروائے گئے۔ تاہم 1980 کی دہائی سے ملک میں سنکھیا کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے۔ سنکھیا کو نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ سونگھا جا سکتا ہے۔ اس کے ظاہر ہونے کی پہلی نشانی یہ ہے کہ اگر یہ زہر جسم میں داخل ہو جائے تو جلد پر زخم نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس زہر سے لوگ دل کے امراض اور کینسر کے ساتھ ساتھ جذام جیسے مرض کا شکار بھی ہو سکتے ہیں جس سے متاثرہ شخص اور اس کے گھر والوں کو معاشرتی مقاطعے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سیتن نسا مہرپور کی جلد پر سنکھیا کے باعث دھبے پڑ گئے ہیں۔ ان کی عمر 50 سال کے قریب ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری نے ان کے خاندان کو برباد کر دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس کنویں کی وجہ سے میری پوری جلد کالے دھبوں سے بھر گئی ہے۔‘ ’میں اپنے بچوں کی وجہ سے پریشان ہوں کیونکہ کوئی بھی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘ حکومت کی
جانب سے کنوؤں کو ہٹانے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن پھر بھی کئی دور دراز علاقوں میں پانی کے لیے بنیادی ذریعہ یہی ہیں اور خاص طور پر بعض خاندانوں نے تو اپنے ہی ٹیوب ویلز بنا رکھے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے اندازوں کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سال سنکھیا کی وجہ سے 43 ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ 28 سالہ منہاج چوہدری پہلے بڑھے تو امریکہ میں ہیں لیکن وہ اپنی چھٹیوں کے دوران اپنے گھر والوں سے ملنے بنگلہ دیش جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بات سوچ کر ہی مجھے حیران اور غمگین کر دیتی تھی کہ کیسے امریکہ میں ہمیں پانی کے جان لیوا ہونے کا خطرہ نہیں ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ہر پانچ مرنے والوں میں سے ایک کی موت غیر محفوظ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔‘ جب منہاج چوہدری کے دادا کی موت بھی پانی سے جڑی بیماری کے باعث ہوئی تو انھوں نے اس بارے میں کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ انھوں نے 2013 میں ڈاکٹر آروپ کے سین گپتا کے ساتھ مل کر ’ڈرنک ویل‘ کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر آروپ کے سین گپتا نے ایک خاص قسم کی گوند ٹیکنالوجی ایجاد کی تھی جو پہلے ہی انڈیا میں کام کر رہی تھی۔گوند کی مدد سے سنکھیا اور دیگر مضر صحت چیزوں کو پانی سے الگ کیا جاتا ہے۔ ایک بار ڈرنک ویل فلٹر سے سلسلہ وار طریقے سے پانی کو گزارا جائے تو وہ ٹینکس میں موجود دیگر مضر صحت ذرات کو بھی نکال دیتا ہے۔ ’ڈرنک ویل‘ کے
مقامی کارباری افراد مقامی سطح پر اس پانی کو فروخت کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو اسی نظام کی بہتری کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔اس پانی کی قیمت علاقوں کے حساب سے رکھی گئیں ہیں لیکن 20 لیٹر پانی کی ماہانہ قیمت تقریباً صفر اعشاریہ صفر پانچ اور صفر اعشاریہ ایک دو یومیہ کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پانی کے 30 سے 50 فیصد منصوبے صرف اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں بڑی سرمایہ کاری کر لی جاتی ہے اور بعد میں انھیں برقرار نہیں رکھا جاتا۔ ڈاکٹر خیرالاسلام کا جو کہ بنگلہ دیش میں فلاحی ادارے واٹر ایڈ کے ڈائریکٹر ہیں، ماننا ہے کہ زہریلے پانی کو روکنے کے لیے سماج سے جڑے کاروباری افراد کا کردار انتہائی اہم ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک بنیادی مسئلہ آپریٹ کرنا اور مرمت کرنا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ڈرنک ویل کی آپریٹنگ اور مرمت کی لاگت اسی کے اپنے اندر ہے اسی لیے اس قسم کے ماڈل کی ملک کو ضرورت ہے۔‘ پہلا ڈرنک ویل پلانٹ 2015 میں مانک گنج میں لگایا گیا تھا، اور آج اس ایک پلانٹ سے روزانہ 750 گاہکوں کو ڈیڑھ لاکھ لیٹر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ صاف پانی فراہم کرنے کا یہ منصوبہ ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ سکولوں میں بچوں کے لیے بننے والے کھانوں کے لیے صاف پانی مہیا کرنا ہے، اس طرح بچے اپنے والدین کو اس حوالے سے بتاتے ہیں اور یہ
منصوبہ دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت انڈیا اور بنگلہ دیش میں 30 ڈرنک ویل پلانٹس موجود ہیں جو ایک لاکھ سے زائد افراد کو صاف پانی کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ منہاج چوہدری کے خیال میں یہ ڈرنک ویل کے لیے صرف شروعات ہے۔ انھیں امید ہے کہ ایک دن یہ منصوبہ ایشیا کے سینکڑوں لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گا۔
وہ اس حوالے سے بنگلہ دیش کی حکومت سے بات کر رہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کو ملک بھر میں پھیلا دیا جائے۔کارباری نیٹ ورک کے ذریعے لوگوں کو اس منصوبے میں شامل کرنے سے منہاج چوہدری کے خیال میں یہ نطام ’ہمیشہ‘ صاف پانی مہیا کرتا رہے گا۔