نیویارک(این این آئی)ماہرین فلکیات نے کہکشاں میں زیادہ سے زیادہ فاصلے کی پیمائش کا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس سے قبل کائنات کے رموز جاننے کیلئے انسان زیادہ سے زیادہ 36 ہزار نوری سال تک کے فاصلے کی پیمائش کر چکا ہے، یہ پیمائش 2013ء میں کی گئی تھی تاہم نئی تحقیق میں 660 ہزار نوری سال تک کی بوکھلا دینے والی پیمائش کی گئی۔سائنس میگزین کی رپورٹ کے مطابق، جرمنی کے میکس
پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ریڈیو ایسٹرونومی اور امریکا کے ہارورڈ سمتھ سونین سینٹر فار آسٹرو فزکس کے ماہرین نے وہی تکنیک استعمال کی جو 180 سال قبل یعنی 1838ء میں جرمن سائنسدان فریڈرک بیزل نے کی تھی۔فریڈرک نے اسٹیلر پارالیکس نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے 10.3 نوری سال کے فاصلے کی پیمائش کی تھی اور اس پیمائش کی وجہ سے سگنس نامی ستاروں کے جھرمٹ کا فاصلہ معلوم کیا جا سکا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ فریڈرک نے اس فاصلے کی پیمائش صرف ایک سادہ ٹیلی اسکوپ، تیز نظر، اپنی ذہانت اور ٹرگنومیٹری کے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔اس حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ تکنیک سمجھنا بہت آسان ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے مناسب فاصلے پر انگلی رکھیں اور پہلے اسے ایک آنکھ بند کرکے دیکھیں اور پھر دوسری آنکھ بند کر کے دیکھیں تو آپ کو یہ انگلی دو مختلف مقامات پر نظر آئے گی، اس فاصلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے چہرے اور انگلی کے درمیان فاصلہ کتنا ہے۔ماہرین نے یہ طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک کا فاصلہ معلوم کیا اور اس نئی تکنیک کو ویری لانگ بیس لائن ایرے (وی ایل بی اے) کا نام دیا۔ وی بی ایل اے سسٹم میں 10 بڑے اینٹینا استعمال کیے گئے ہیں جو شمالی امریکا، ہوائی اور جذائر کیریبین میں نصب ہے اور فضا سے دیکھنے پر یہ ایک بڑی آنکھ کی طرح نظر آتے ہیں۔اسی بڑی آنکھ کے ذریعے خلا میں جھانکتے ہوئے سائنسدانوں نے زیادہ سے زیادہ فاصلے کی پیمائش میں کامیابی حاصل کی۔