ہفتہ‬‮ ، 12 اپریل‬‮ 2025 

ایک گیراج کے دفتر سے شروع ہونے والے ’’گوگل‘‘ کی عظیم کہانی

datetime 20  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)ذرا تصور کریں کہ، دنیا میں اگر گوگل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟گوگل کے بغیر اس دنیا کا تصور ہمیں چند لمحوں میں ہی کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے، لیکن یقین مانیں یہ دنیا 1998 سے پہلے گوگل کے بغیر ہی تھی۔آج الٹے، سیدھے، غلط اسپیلنگ اور ادھورے جملے لکھنے کے باوجود دنیا کے راز اور معلومات ہمیں دستیاب کر دینے والے گوگل سرچ انجن کو سب سے پہلے 1998 میں بنایا گیا تھا۔لیکن اسے دنیا

میں عام استعمال کے لیے 19 اگست 2004 کو پیش کیا گیا، دنیا 18 اگست 2004 تک بھی ایسی نہ تھی جو آج ہے۔گوگل کی تخلیق کی کہانی کیلی فورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں لیری پیج اور گراڈ اسکول کے طالب علم سرگی برن کے درمیان ہونے والی ملاقات سے ہوئی۔دونوں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے، انہوں نے پہلی ملاقات میں تو کسی چیز پر اتفاق نہیں کیا، لیکن جلد ہی وہ ایک انقلابی فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے ورلڈ وائڈ ویب (ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو) انٹرنیٹ پر موجود صفحات کو ملانے کے لیے ابتدائی طور پر بیک رب نامی ایک سرچ انجن بنایا جو آگے مختلف شکلوں میں تبدیل ہوکر بلآخر گوگل بنا۔اگلے ہی 3 سالوں میں ان کی یہ سرچ انجن نہ صرف تعلیمی اداروں میں کامیابی ہوئی بلکہ اس نے ٹیکنالوجی اداروں کی توجہ بھی حاصل کرلی، اور اگست 1998 میں پہلی بار ٹیکنالوجی ادارے سن مائیکرو سسٹمز کے شریک بانی اینڈی بیچلوشیم نے انہیں ایک لاکھ ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا،یوں گوگل انکارپوریٹ ادارہ بنا۔نئے کارپوریٹ ادارے نے اب کیلی فورنیا کے مینلو پارک ایریا میں موجود ایک گیراج سے کام کا آغاز کیا، اس گیراج کو کرائے پر حاصل کیا گیا، آگے چل کر یہ گیراج اس ادارے کا مرکزی دفتر بنا، اور اس گیراج کی مالکن سوزن وجوکی پہلے گوگل کی ملازم نمبر 16 اور پھراسی ادارے کی کمپنی’یوٹیوب‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) بنی۔

اسی گیراج کی حدود کو بڑھا کر مائونٹین ویو تک پھیلایا گیا، جہاں آج گوگل پلیکس کے نام سے دنیائے انٹرنیٹ کے اس سب سے بڑے ادارے کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔گوگل کا پہلا ڈوڈل 1998 میں ہی بنایا گیا، پھر ایک کے بعد ایک اور ہر ملک کے لیے الگ الگ اور خصوصی مواقع پر بھی اسپیشل ڈوڈل بنانے کا کام شروع کیا گیا۔گوگل کے پہلے کتے ملازم کا نام یوشکا ہے، آج گوگل کے دفاتر دنیا کے 50 ممالک میں موجود ہیں، اور اس

کے 60 ہزار ملازم ہیں۔آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں گوگل پر چیزیں سرچ نہ کی جاتی ہوں، یوٹیوب پر ویڈیوز نہ دیکھے جاتے ہوں، جی میل سے ای میل نہ کیا جاتا ہے، اور اینڈرائڈ سسٹم کے ذریعے فون نہ چلائے جاتے ہوں۔

موضوعات:



کالم



یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی


عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…