اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) روایتی ایندھن یعنی پٹرول ، ڈیزل اور گیس کے تیزی سے ختم ہوتے ذخائر نے دنیا کو متبادل ایندھن کی ضرورت کی جانب متوجہ کیا۔ سول انرجی، بائیو فیول اسی متبادل ایندھن کی مثالیں ہیں۔ دنیا کی روانی میں روایتی ایندھن کا بڑھتا ہوا استعمال اس کے دنیا میں موجود ذخائر میں کمی کا باعث بنتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا نے متبادل ایندھن کے ذرائع کو بھی
استعمال میں لانے کا سوچا اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار اور گاڑیوں کی روانی ممکن بنانے پر عملدرآمد ہوا۔ بائیو فیول کو صنعتوں میں بطور متبادل ایندھن کے طورپر استعمال کیا جانے لگا مگر جلد ہی اس کے ماحول دوست نہ ہونے کا عقدہ کھلا اور دنیا ایک بار پھر شش و پنج میں پڑ گئی کہ روایتی ایندھن کے کم ہوتے ذخائر کو کیسے بچایا جائے اور ترقی کے سفر کا بوجھ اٹھانے والے اس روایتی ایندھن کو کیسے ریلیف فراہم کیا جائے۔ اسی تحقیق کے دوران کینیڈا کے کچھ سائنسدانوں نے دھاتوں کو بطور ایندھن استعمال کرنے کیلئے اپنے تجربات کا آغاز کیا اور کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی کے ماہرین نے دس برسوں کی تحقیق کے بعد یہ بتایا ہے کہ لوہے کو بطور ایندھن استعمال میں لایا جا سکتا ہے تاہم اس پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔میکگل یونیورسٹی کے اینڈریو ہگنز کے مطابق دھاتی ایندھن کو باریک پیس کر بنایا جا سکتا ہے جو چولہے میں استعمال کے دوران عام ایندھن کے مقابلے میں زیادہ توانائی خارج کرتا ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بجائے آئرن آکسائیڈ یعنی زنگ بناتاہے جو کہ ایک ویکیوم میں جمع کر کے ازسر نو بطور ایندھن استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور یہ ماحول دوست بھی ہے۔ لوہے کا بطور ایندھن استعمال کلوزڈ لوپ سسٹم تخلیق کرتا ہے یعنی ایندھن استعمال کے بعد جو شکل اپناتا ہے
وہ بھی بطور ایندھن استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔اینڈریو ہگنزنے امید ظاہر کی ہے یہ سسٹم گاڑیوں کے لیے دوسرے متبادل ایندھنوں جیسے بایوفیول وغیرہ سے زیادہ بہتر اور مؤثر ثابت ہوگا اور مستقبل قریب میں مارکیٹ میں میسر ہو گا تاہم ابھی اس پر مزید تحقیق اور تجربات کی ضرورت ہے۔