اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا اور اس کے حوالے سے پیش گوئیاں کرنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے،چندلوگوں کی پیش گوئیاں درست تو بہت سو کی غلط بھی ثابت ہوئی ہےلیکن آج موجودہ رجحانات کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں اندازے لگانا اور پیش گوئیاں کرنا ایک سماجی علوم کا ایک باقاعدہ شعبہ
بن چکا ہے جسے فیوچرولوجی یعنی ’’مستقبلیات‘‘ کہا جاتا ہے۔ذیل میں دی گئی پیش گوئیاں بھی اسی نوعیت کی ہیں جن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے تحت گزشتہ اور حالیہ ترقی کے سماجی اثرات کو آپس میں مربوط کرتے ہوئے اندازے لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج سے 100 سال بعد یعنی 2117 میں ممکنہ طور پر توانائی اور رہائش کی کیفیت کیا ہوگی اور اس ضمن میں اُس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے کیونکر استفادہ کیا جارہا ہوگا۔
آسمانی اور زمینی سورج:
توانائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے بڑے بڑے آئینوں کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جنہیں خلاء میں پہنچادیا جائے گا جہاں رہتے ہوئے وہ سورج کی روشنی کو زمین پر موجود کسی خاص مقام پر مرکوز کریں گے جس سے گیگاواٹ پیمانے
جتنی بجلی بنائی جاسکے گی۔دوسری جانب امید ہے کہ آئندہ 20 سے 30 سال میں ’’فیوژن‘‘ یعنی گداخت کہلانے والی نیوکلیائی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے صاف ستھری نیوکلیائی توانائی کا تجارتی پیمانے پر حصول بھی ممکن ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ فیوژن ہی وہ عمل ہے جس کی بدولت سورج پچھلے 5 ارب سال سے روشنی اور حرارت خارج کررہا ہے جس کی بدولت زمین پر زندگی کا تانا بانا قائم ہے۔
تھری ڈی پرنٹروں سے بنے مکانات:
ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ 100 سال میں تھری ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہوجائے گی کہ اس سے پورے مکانات تک تعمیر کیے جاسکیں گے۔ بڑے تھری ڈی پرنٹر اس وقت بھی بن چکے ہیں لیکن وہ صرف اینٹیں ہی تیار کرسکتے ہیں جب کہ دیواریں اور چھتیں ’’پرنٹ کرنے‘‘ والے تھری ڈی
پرنٹروں پر کام تجرباتی مراحل میں ہے۔آنے والے برسوں میں مزید جدت کے ساتھ یہ تھری ڈی پرنٹر اس قابل ہوجائیں گے کہ ان میں پورے گھر کا ڈیزائن فیڈ کردیا جائے اور وہ ضروری مواد استعمال کرتے ہوئے پورا مکان خودکار انداز میں تعمیر کردیں۔
میلوں بلند فلک بوس عمارتیں:
دنیا کے امیر ممالک میں بلند سے بلند تر عمارتیں بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ایسے منصوبے منظرعام پر آچکے ہیں جن کے تحت ایک کلومیٹر سے لے کر پانچ کلومیٹر تک بلند عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکے اور مضبوط مادّوں کی بدولت ایسی عمارتیں بنانا اب ممکن ہوگیا ہے جو
پہلے امکان کے دائرے میں نہیں تھیں۔آئندہ 100 سال میں یہ رجحان مزید تقویت پاچکا ہوگا کوئی بعید نہیں کہ 2117 میں اس دنیا کے باسی 10 کلومیٹر بلند یا اس سے بھی اونچی عمارتوں کے بارے میں جان کر حیرت زدہ نہ ہوں۔
زیرِ آب شہر:
انسانی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ چند عشروں ہی میں زمین کی ساری خشکی انسانی رہائش کےلیے ناکافی پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب سطح سمندر پر تیرتے ہوئے شہر بتدریج حقیقت بنتے جارہے ہیں لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ایسے شہروں پر بھی کام شروع ہوچکا ہے
جو سمندروں کی تہہ میں ہوں گے اور جنہیں ’’زیرِ آب شہر‘‘ (sub-aqueous cities) کا نام دیا گیا ہے۔سطح کی نسبت سمندری تہہ میں شہر بسانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ وہاں رہنے والوں کو ہر وقت وافر آکسیجن، مناسب درجہ حرارت، موزوں روشنی، صاف پانی اور غذا کی فراہمی یقینی بنانا
لازمی امور میں شامل ہوگا۔ موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے چند ایک افراد تو کچھ عرصے کے لیے سمندر کی تہہ میں قیام کرسکتے ہیں لیکن سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں پورا شہر بسانا اور طویل عرصے تک وہاں پر لوگوں کو رہنے کی تمام سہولیات فراہم کرنا اس سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ اور دقت طلب معاملہ ہے جب کہ اس پر آنے والی لاگت بھی یقیناً بہت زیادہ ہوگی۔
زمین دوز شہر:
جب ہم سینکڑوں منزلہ عمارتیں بنانے اور سمندر کی تہہ میں شہر بسانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں تو زمین دوز شہر آباد کرنے میں کیا قباحت ہے۔ ویسے بھی زیرِ زمین شہروں کی تاریخ بھی کم از کم 5 ہزار سال قدیم ہے۔ البتہ اسے اکیسویں اور بیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے
ایسے شہروں پر کام کرنا ہوگا جو زمین میں سینکڑوں میٹر گہرائی تک منزل در منزل بنے ہوں اور جہاں انسانی زندگی کی تمام ضروریات دستیاب بھی ہوں۔’’ارتھ اسکریپر‘‘ کہلانے والے یہ شہر گھٹن سے پاک ہوں گے جن میں تازہ ہوا اور روشنی پہنچانے کا خصوصی بندوبست کیا جائے گا جو بہت بڑے
پیمانے پر ہوگا۔ زیرِ آب شہروں کی نسبت شاید ایسے شہروں کی تعمیر آسان ہو اور یہ اکیسویں صدی ختم ہونے سے پہلے ہی تعمیر کرلیے جائیں۔
ایک عمارت میں پورا شہر:
ویسے تو آج کل ایک بلند و بالا عمارت میں ہزاروں افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں لیکن یہ تذکرہ اتنی بڑی عمارت کا ہے جس میں بیک وقت لاکھوں افراد رہ سکیں گے اور جن کے گھروں سے لے کر دفاتر تک اسی ایک عمارت میں واقع ہوں گے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو ایک محدود جگہ میں اس طرح
سمونے کے لیے کہ انہیں اپنی تمام ضروریاتِ زندگی وہیں میسر ہوجائیں، کوئی آسان کام ہرگز نہیں لیکن اسے ناممکن بھی نہیں کہا جاسکتا۔