نیویارک(نیوزڈیسک)عام طورپر پرنٹر کا نام آتے ہی کاغذ پر کسی تحریر یا تصویر کے پرنٹ کا تصور ابھرتا ہے لیکن یہ بات اب پرانی ہوگئی ہے اور اب پرنٹر سے لکڑی اور دیگر اشیا کو ان کے ڈیزائن کے مطابق پرنٹ کیا جاتا ہے لیکن بات یہیں نہیں رکی بلکہ اب سائنس دان اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی اعضا کی تیاری کرسکیں اسی لیے اسے جدید طب کے میدان میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔امریکی طب جنرل میں چھپنے والے والی تحقیق کے مطابق اس نئی پیش رفت سے کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والی خرابی کو زندہ ریشوں کے استعمال سے درست کیا جا سکے گا جب کہ تحقیق کے دوران جب تھری ڈی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ہڈیاں اور پٹھے جانوروں میں نصب کیے گئے تو انہوں نے نارمل طریقے سے کام کرنا شروع کر دیا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے متاثرہ انسان کے اپنے ہی خلیوں کو ایک خاص ترکیب سے گزارنے کے بعد ان کے ٹوٹے ہوئے جبڑے اور کان کو دوبارہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ یہاں تک کہ کسی کے دل میں سوراخ تک کو بھی بند کیا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ان اعضا کی تیاری میں ایک بڑا مسئلہ انسانی خلیوں کو زندہ رکھنا ہے کیونکہ 2 ملی میٹر سے زیادہ موٹے ریشوں میں ان کے خلیوں تک آکسیجن اور دیگر غذائی اجزا نہیں پہنچ پاتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کے ویک فوریسٹ بیپٹسٹ میڈیکل سینٹر کی ایک ٹیم نے یہ نئی تکنیک نکالی ہے کہ تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے تیار کیے جانے والے ریشوں میں اسپنج کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ رکھے جائیں تاکہ آکسیجن اور غذائی اجزا ان تک پہنچتے رہیں۔