لندن(نیوز ڈیسک) بلیک ہول ایسے مرتے ہوئے ستارے کو کہتے ہیں جس کی کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ خود اس سے روشنی باہر خارج نہیں ہوپاتی اور وہ باہر سے ایک سیاہ دائرے کی مانند نظر آتے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ممکن نہیں لیکن اگر ہماری زمین کسی طرح بلیک ہول میں گرجائے تو اس کا خاتمہ تین طرح سے ہوسکے گا۔ اول درخت، پہاڑ عمارتیں اور خود ہم سویوں کی طرح کھنچ کر بہت لمبے ہوجائیں گے، اگر کسی بلیک ہول میں کسی انسان پاو¿ں کی طرف سے اندر جائے تو پاو¿ں لمبے ہوجائیں گے اور بازو بھی کھنچنے لگیں گے لیکن یہ صرف چند سیکنڈ کے لیے ہی ہوگا اس کے بعد وہ ہلاک ہوجائے گا اور اسی طرح زمین سمیت تمام اشیا لمبے ریشوں کی طرح ہوجائیں گی پھر تمام مادہ بلیک ہول کے کنارے ( ایونٹ ہورائزن) پر جمع ہوکر دہکنے لگے گا اور شدید روشنی خارج ہوگی جب کہ بلیک ہول کے اندر مکمل تاریکی ہوگی۔دوسرے نظریے کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بلیک ہول کے قریب جو بھی مادہ جائے وہ اس کی سطح پر جمع ہوکر دہکنا شروع ہوجائے اور یہ عمل کھنچنے سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اور یوں بلیک ہول کے کنارے سے شدید روشنی اور ریڈی ایشن ( اشعاع) خارج ہوں گی۔ماہرین کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاص قسم کے بلیک ہولز سے ٹکرانے کے بعد مادہ اور دیگر اشیا تباہ نہیں ہوں گی بلکہ ان کی ایک ناقص نقل ( کاپی ) بن جائے گی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں موجود رہیں گی اور اسے ماہرین مادے کا ہولوگرام کہتے ہیں