اسلام آباد (نیوز ڈیسک )مصر میں رہنے والا ایک مستری غیر متوقع طور پر راتوں رات اتنا مشہور ہو گیا ہے کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ’تلاش‘ اسی کی ہوتی ہے۔ایسا بھی موقع آیا کہ اگر مصر میں کوئی بھی گوگل سرچ انجن میں ’گوگل‘ کا لفظ لکھ تلاش کرتا تو اس کے سامنے سب سے پہلے صابر الطونی کا صفحہ آتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صابر الطونی کے کاروبار میں گوگل کا لفظ ’کِی ورڈ‘ کے طور پر شامل نہیں اور نہ اس لفظ کا ان کے کاروبار سے کوئی تعلق ہے۔ان کے ’گوگل پلس‘ کے صفحے کو چالیس لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہے اور ایسے لگتا ہے کہ اب صورتِ حال درست ہوگئی ہے۔اس حیرت ناک بات کا علم سب سے پہلے ایاد نور کو ہوا جو مصر میں ڈیجیٹل مارکیٹ میں کام کرتے ہیں اور انھوں نے اس بارے میں ’میڈیم‘ نامی پلیٹ فارم پر لکھا۔ جب ایاد نور نے صابر الطونی سے رابطہ کیا تو مسٹر الطونی نے بتایا کہ انھوں نے اپنے صفحے کی تشہیر کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔صابر الطونی اپنی اچانک شہرت سے بھی بے خبر تھے البتہ انھیں فون بہت زیادہ آنے شروع ہو گئے تھے۔ انھوں نے ایاد نور سے بات کرتے ہوئے کہا ’اچھا تولوگ یہ سمجھتے ہیں میں گوگل کی ہی ایک کمپنی ہوں۔‘حالیہ برسوں میں سرچ انجن آپٹیمائزیشن (ایس ای او) ایک بڑا کاروبار بن گیا ہے کیونکہ کمپنیاں چھوٹی ہوں یا بڑی، سرچ انجن کی فہرست میں اپنے تعارفی خاکے کو بلند ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔کمپنیاں اپنی درجہ بندی بڑھانے کے لیے کئی ترکیبیں استعمال کرتی ہیں جبکہ ایس ای او کی فرمیں مختلف طرح کی خدمات کی پیشکش کرتی ہیں جن میں جب سرچ انجن میں کسی کمپنی کو تلاش کیا جا رہا ہو، عین اسی وقت کمپنی کو اس تلاش کا حساب و شمار بھی مل جاتا ہے۔اس کے علاوہ اسے ان بہترین لِنکس کا بھی علم ہو جاتا ہے جن سے کمپنیاں درجہ بندی میں اوپر چلی جاتی ہیں۔ایاد نور کو اس معاملے کی جو واحد توجیہہ ملی وہ یہ ہے کہ صابر الطونی نے اپنے گوگل پلس کے صفحے کی ویب سائٹ کی فیلڈ پر اپنا ٹوئٹر ہینڈل ’ssabereltony‘ ڈال دیا تھا۔اگر یہ توجہیہ درست ثابت ہوئی تو مطلب یہ ہوگا کہ ’اگر آپ گوگل کو پیچھے چھوڑنا چاہیں تو اپنے گوگل پلس پروفائل پر ویب سائٹ کے یو آر ایل کو بدل دیں۔‘سرچ انجن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے قائم فرم ’کوزائی‘ کے اولیور ایوبنک نے بی بی سی کو بتایا ’گوگل پلس کے پروفائل عموماً اچھے نتائج دکھاتے ہیں لیکن اس سطح پر نہیں (جیسے الطونی کے معاملے میں ہوا ہے)۔‘انھوں نے کہا ’صابر الطونی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک اچھا حادثہ تھا لیکن گوگل کمپنی کے لیے ایک غلطی تھی۔چونکہ گوگل کمپنی توافق پر فخر کرتی ہے لہذا وہ چاہے گی کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں