اسلام آباد (نیوز ڈیسک )بغیر ایندھن کے شمشی قوت سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لیے پرواز کر چکا ہے۔سوئٹزلینڈ کے پائلٹ آندرے بورشبرگ اسے چین سے امریکی ریاست ہوائی لے جا رہے ہیں۔تجرباتی طیارہ جس کے بازو کی لمبائی جمبو جیٹ سے زیادہ ہے لیکن اس کا وزن صرف ایک موٹر کار سے قدرے زیادہ ہے مقامی وقت کے مطابق چین کے شہر نانجینگ سے شب کے بعد دو بجکر 39 منٹ پر روانہ ہوا۔اطلاعات کے مطابق مسٹر بورشبرگ کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے پانچ سے چھ دن کا عرصہ لگ جائے گا اور اس دوران زیادہ تر وہ جاگتے رہیں گے اور بس تھوڑی بہت نیند لے سکیں گے۔موناکو میں قائم سنٹرل روم سے ان کے پورے سفر کی نگرانی کی جائے گی۔موسم کی اطلاعات دینے والے اور پرواز کی حکمت عملی بنانے والے ماہرین انھیں مسلسل تازہ معلومات فراہم کرتے رہیں گے کہ ان کے لیے کون سا راستہ بہتر ہے۔دونوں پائلٹ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھتے ہیں بائیں برٹرینڈ ہیں تو دائیں لمبے قد کے آندرے بورشبرگ ہیںاس پراجیکٹ کا مقصد اس طیارے کے ذریعے پوری دنیا کا چکر لگانا ہے جبکہ ابھی یہ سنگل سیٹڈ پروپیلر کے ذریعے چلنے والا طیارہ اپنے ساتویں مرحلے میں ہے۔مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلنے والے اس طیارے کے سفر کا آغاز مارچ میں ابوظہبی سے ہوا تھا لیکن ایک ماہ تک چین کے ساحل پر اسے موسم کے مناسب ہونے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف موافق ہوا کی ضرورت ہے بلکہ اسے صاف موسم کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی حاصل کر سکیں۔اس کے پینل پر لگی بیٹریاں اس قدر چارج ہوں کہ رات بھر طیارے کو پرواز میں مدد کرتی رہیں۔یہ فلائٹ دو حصوں میں مکمل ہوگی۔ پہلے یہ طیارہ ہوائی پہنچے گا جو کہ نانجینگ سے 8000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس طیارے کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے اسے بہت سی راتیں اور دن فضا میں ہی گزارنے پڑیں گے۔برٹرینڈ پیکارڈ نے اس سے قبل کے مرحلے پر اسے کامیابی کے ساتھ چلایامسٹر بورشبرگ انتہائی تجربہ کار پائلٹ ہیں اور ایک تربیت یافتہ انجینیئر ہونے کے سبب وہ طیارے کے تمام قسم کے نظام سے پوری طرح واقف ہیں۔اس کے باوجود وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ یہ مشن کس قدر مشکل ہے۔انھوں نے ہوائی کے لیے پرواز بھرنے سے پہلے بی بی سی کو بتایا: ’یہ سفر بہت حد تک میرے خود کے بارے میں ہے یہ ایک اندرونی (روحانی) سفر ہونے جا رہا ہے۔یہ میری خود کی بازیافت ہوگی کہ اس پانچ چھ دنوں کے دوران جب میں ہوا میں ہوں گا تو میں کسیا محسوس کرتا ہوں اور میں کس طرح خود کو رکھتا ہوں۔‘اور برٹرینڈ پیکارڈ جنھوں نے اس سے قبل کے مرحلے کے دوران اس سولر امپلس کو چلایا ہے انھوں نے بتایا: ’وہاں ایک وقت میں ایک ہی پائلٹ ہو سکتا ہے اس لیے پائلٹ کو خود ہی سب کچھ کرنا ہے۔ اور یہ بہت بڑا طیارہ ہے، اس کے بازو بہت لمبے ہیں، یہ پریشانیوں کے متعلق حساس ہے اور بہت سست رفتار اس کی پرواز ہے۔جب ہوا تیز ہو تو اس کا کنٹرول کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں ایک خود کار پائلٹ کا نظام بھی ہے۔ طیارے پر ٹوائلٹ موجود ہے، کئی دن کے لیے کھانا ہے، پانی اور سب کچھ ہے اور ہم لوگ تربیت یافتہ بھی ہیں۔‘اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف باد موافق کی ضرورت ہے بلکہ صاف موسم کی بھی اسے ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی حاصل کر سکیںاگر ابتدا میں کوئی پریشانی ہوتی ہے یا موسم خراب ہو جاتا ہے تو مسٹر بورشبرگ چین یا جاپان کے لیے واپسی کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔لیکن سفر میں وہ مرحلہ بھی آئے گا جب ان کے پاس یہ سہولت نہیں رہے گی اور اگر واقعی کوئی چیز بہت خراب ہو جاتی ہے تو پھر ان کی سپورٹ ٹیم کو ان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔پائلٹ خود سے نیچے نہیں جاسکتا ہے کیونکہ پانی پر اترتے ہی بجلی کے جھٹے لگیں گے اس کے برعکس انھیں کسی پانی والے جہاز کا انتظار کرنا ہوگا جو آئے اور انھیں اترنے کی سہولت فراہم کرے۔اگر وہ کلائیولا ایئرپورٹ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا بازی کے کئی ریکارڈز قائم کریں گے جن میں کسی سنگل سیٹ والے طیارے میں سب سے طویل دورانیے کے سفر کا ریکارڈ بھی شامل ہوگا۔اس سولر امپلس پراجیکٹ کا مقصد کسی خاص قسم کی ہوا بازی کا مستقبل پیش کرنا نہیں بلکہ صاف ستھرے ایندھن کے استعمال کا مظاہرہ کرنا ہے۔