اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اس کائنات میں متعدد کہکشاں موجود ہیں۔ وہ کہکشاں جس کا حصہ زمین ہے، اس کے مرکز میں ایک بلیک ہول بھی ہے اور اسی طرح دریافت شدہ کہکشاو¿ں میں سے متعدد کے مرکز میں ایک بلیک ہول ہوتا ہے۔ ہماری کہکشاں سے 10.5بلین نوری سال کے فاصلے پر ایک ایسی کہکشاں بھی موجود ہے جس کے مرکز میں ایک نہیں دو بلیک ہولز ہیں اور ماہرین طبییعات کا اندازہ ہے کہ یہ بلیک ہولز مسلسل ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور امکان ہے کہ21برس بعد یہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے۔ اگر ماہرین طبیعات کی یہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی تو ایسے میں زمین پر نافذ طبیعات کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ان بلیک ہولز کو دیکھنا متعدد وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے، ایک تو یہ کہ یہ سیاہ یا دکھائی نہ دینے کے قابل ہوتے ہیں اور دوئم یہ کہ یہ زمین سے انتہائی فاصلے پر ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں جس کی وجہ سے انہیں ٹیلی سکوپس کی مدد سے دیکھنا ناممکن ہے۔ یہ دونوں بلیک ہولز کہکشاں کے جس حصے میں ہوتے ہیں، اسے ماہرین نے کواسر کا نام دے رکھا ہے۔ عام طور پر ہر کہکشاں کے مرکز میں روشنی کا ایک منبع ہوتا ہے یہی کواسر کہلاتا ہے جس سے کم یا زیادہ روشنی پھوٹتی ہے تاہم مذکورہ کہکشاں کے معاملے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان بلیک ہولز کے حرکت کرنے کی وجہ سے یہاں سے پھوٹنے والی روشنی کی مقدار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی آف میریلینڈ کے ایک طالب علم نے315کواسرز کا جائزہ لیا ہے۔ اس کیلئے اس نے پینورامک سروے ٹیلی سکوپ اور ریپڈ رسپانس سسٹم کا سہارا لیا ہے۔ اس جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول یا ہولز کا حجم سورج کے حجم سے 30بلین گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ یہ دونوں بلیک ہولز فی الوقت ایک دوسرے سے جتنے فاصلے پر ہیں، اس کے حساب سے یہ سات برس میں ٹکرا سکتے ہیں تاہم چونکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، اس لئے یہ دونوں بلیک ہولز بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر دور بھی ہورہے ہیں، اسی لئے ان کے آخر کار ٹکرانے میں 21برس کا وقت لگ سکتا ہے۔ امکان ہے کہ جب یہ دونوں بلیک ہولز ایک دوسرے کے کافی نزدیک آجائیں گے تو ان میں موجود مقناطیسی قوت انہیں ایک دوسرے کے قریب بے حد تیزی سے لے آئے گی اور یہ مل کے ایک نیا بلیک ہول تخلیق کرڈالیں گے۔ ان دونوں کے ایک دم تیز رفتار سے ٹکرانے سے طاقتور کشش کی حامل لہریں پیدا ہوں گی۔ اس عمل کو گھنٹا بجنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز کی لہروں کے موازنے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان لہروں کے پھیلنے، گھٹنے ، بڑھنے کے عمل سے سپیس ٹائم کا حلیہ بھی بدل سکتا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں