لندن (نیوز ڈیسک) سائنسدانوں نے ایک ایسی ڈرامائی ویڈیو جاری کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح انسانی دفاعی نظام کینسر سیلز کیخلاف لڑائی کرتا ہے اور انہیں چن چن کے مارتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ماہرین نے امیجنگ ٹیکنیک کو استعمال کیا ہے تاکہ وہ کینسر سیلز کے دشمن ٹی سیلز کے کام کو جان سکیں۔ ٹی سیلز خون کے ان سفید خلیوں کو کہتے ہیں جو بطور خاص رسولی کے خلیوں یا پھر ایسے سیلز کا خاتمہ کرتے ہیں جو کہ وائرس سے متاثر ہوچکے ہوں۔ انسانی جسم میں یہ اربوں کی تعداد میں ہوتے ہیں اور ایک چائے کے چمچ برابر خون کی مقدار میں پچاس لاکھ ٹی سیلز موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انسانی بال کے دسویں حصے جتنا طویل یا پھر 10مائیکرومیٹر کا ہوتا ہے۔
اس ویڈیو کو بنانے کا سہرا پروفیسر گرفتھس کے سر ہے جو کہ کیمبرج یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل ریسرچ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کے اندر جنگجو ٹی سیلز کی پوری ایک فوج ہوتی ہے جس کا کام ہی خطرناک سیلزکو تباہ کرنا ہے اور وہ یہ کام بار بار کرتی ہے۔ یہ سیلز سیکیورٹی افسران کی طرح انسانی جسم کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران وہ ایسے سیلز پر بھی نگاہ رکھتے ہیں جو کہ جسم کیلئے کسی بھی طرح نقصان دہ ثابت ہوسکیں اور پھر یہ انہیں انتہائی مہارت سے ختم کر ڈالتے ہیں۔ اس ویڈیو میں ٹی سیلز نارنجی یا پھر سبز رنگ کے دکھائے گئے ہیں جو کہ انتہائی تیزی سے حرکت میں رہتے ہیں تاکہ اپنے ماحول کے بارے میں تفتیش جاری رکھ سکیں۔ جوں ہی انہیں کوئی کینسر سیل دکھائی دیتا ہے جو کہ ویڈیو میں نیلے رنگ کا دکھایا گیا ہے تو ٹی سیل کی بیرونی ممبرین اس کی شناخت میں لگ جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ خود کو کینسر سیل سے جوڑ لیتے ہیں اور اپنے جسم میں موجود زہریلے پروٹینز اس حصے میں لاتے ہیں جو حصہ کینسر سیل سے جڑا ہوتا ہے اور پھر اس مہلک پروٹین کو کینسر سیل میں داخل کردیتے ہیں۔ پروفیسر گرفتھس کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں خلیئے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایسے میں ٹی سیل کیلئے اپنا کام انتہائی مہارت سے کرنا کافی مشکل ہے۔ اگر یہ کینسر سیل کے ساتھ خود کو جوڑ کے یہ کام نہ کرے تو ایسے میں ساتھ جڑے صحت مند خلیو¿ں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس زہریلے پروٹین کی کھیپ کینسر سیل میں داخل ہوتے ہی اس کے مرجھانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور پھر یہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔
کینسر سیلز کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے؟ڈرامائی ویڈیو میں انکشاف
22
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں