اسلام آباد (نیو ز ڈیسک )آج کے اس جدید دور میں دنیا بھر کی عمارتوں کی تعمیر میں کنکریٹ کا استعمال عام ہے جس کے بغیر کوئی بھی تعمیر مکمل نہیں ہوتی تاہم ان کنکریٹ سے بنے بلاکس میں اکثر دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو عمارت کو کمزورکردیتی ہے لیکن اب اس مسئلے کا حل نکال لیا گیا ہے اور ہالینڈ میں ایک سائنس دان نے ایسا کنکریٹ تیار کر لیا ہے جواپنے اندر پڑنے والی دراڑ کو خود ہی بھر دے گا۔اس جدید اور انقلابی بلاکس کے تخلیق کارہالینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ہینک جونکرز نے ان بلاکس کی وضاحت کرتے کہا کہ کنکریٹ بلاکس میں دراڑ پڑجانے کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے پانی عمارت میں استعمال ہونے والے لوہے تک پہنچ کر اسے زنگ آلودہ کردیتا ہے جس سے عمارت کمزور ہو کر گرسکتی ہے تاہم اب بائیو کنکریٹ تیار کر لیا گیا ہے جواپنے اندر پڑجانے والی دراڑ کو خود بخود بھر دے گا۔ جونکرز کا کہنا ہے کہ اس کی تیاری عام کنکریٹ کی طرح ہی کی جاتی ہے بس اس میں ایک اور جز جسے ہیلنگ ایجنٹ کا نام دیا گیا ہے شامل کردیا جاتا ہے جو تیار ہونے والے بلاک میں شامل ہوجاتا ہے اور جب بلاک میں دراڑ پڑنے سے پانی اس میں داخل ہوتا ہے تو یہ ہیلنگ ایجنٹ سرگرم ہو کر بلاک کو دوبارہ جوڑ دیتا ہے۔جونکرز نے اس کنکریٹ کی تیاری کا آغاز 2006 میں ہی کردیا تھا تاہم کچھ تکنیکی خرابیوں کے باعث اس کی تیاری میں تاخیر ہوتی رہی کیونکہ اس کی تیاری میں بیکٹیریا کی ضرورت تھی جو اس سخت اور بند ماحول میں زندہ رہ سکے۔ جونکرز نے اس بیکٹریا کی تیاری کے لیے ”بیسیلس بیکٹیریا“ کا انتخاب کیا کیونکہ یہی بیکٹیریا الکلائن یا سخت ماحول میں نہ صرف زندہ رہ سکتا تھا بلکہ تولیدی عمل بھی جاری رکھ سکتا ہے جو کئی دہائیوں تک بغیر غذا اور آکسیجن کے زندہ رہ سکتا ہے۔اب اگلا مرحلہ اسے سرگرم کرنا تھا اس کے لیے جونکرز نے کیلشیم لیکٹیٹ کا انتخاب کیا اور کیلیشیم لیکٹیٹ اور بیکٹیریا کو بائیو ڈی گریڈایبل پلاسٹک سے بنے کیپسول میں بھر دیا جاتا ہے جب کہ اس کیپسول کو گیلے کنکریٹ میں ملا دیا جاتا ہے جب بلاکس میں دراڑ پڑجاتی ہے تو اس میں داخل ہوجانے والے پانی سے کیپسول کھل جاتا ہے جس سے بیکٹیریا کئی اور بیکٹیریا کو جنم دیتا ہے اور جسے لیکٹیٹ سے خوارک ملنے لگتی ہے اور وہ کیلشیم کو کاربونیٹ آئنز سے ملادیتا ہے جس سے کیلسائٹ یا لائم اسٹون وجود میں آکر کنکریٹ میں پڑنے والی دراڑ کو بھر دیتا ہے۔