اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں ضمانت ملنے کے بعد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں دی گئی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کردی۔منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر سزا کے خلاف اپیل کی بحالی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڈ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کے وارنٹ واپس لے لیے ہیں اور مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمارے پاس دو الگ الگ درخواستیں ہیں، دونوں درخواستیں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے سے متعلق ہیں اور ہمیں ان پر نوٹسز جاری کرنے ہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ درخواستوں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ درخواست گزار وجہ بتائے کہ وہ کیوں عدالت سے غیر حاضر رہا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اعظم نذیر تارڈ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بس قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، آپ اس میں ماہر ہیں، جس پر اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ آپ سے ہم سیکھتے ہیں، آپ نے اتنے لینڈ مارک فیصلے دیے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آرٹیکل 10ـ اے اپنی جگہ لیکن عدالت سے غیر حاضر ہونے کی وجوہات بتانا ہوں گی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی غیر حاضری جان بوجھ کر یا بدنیتی پر مبنی نہیں تھی۔اعظم نذیر تارڈ نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس میں ایک قباحت کی ہے، معاملات اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر کوئی اور ہائی کورٹ باہر جانے کی اجازت دیتی ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے، جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ جب اپیلوں کی بحالی کی درخواستیں دائر ہوں تو عدالت کس قانون کی پیروری کرے۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ روٹین کا معاملہ نہیں، یہ شوکاز کا معاملہ ہے، ہم دوسرے فریق کو نوٹس کریں گے، وہ جواب دیں گے، پھر آپ آ کر وجوہات بتا دیجیے گا، عدالت کا آپ کی وجوہات سے مطمئن ہونا ضروری ہے۔اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ آپ ہماری حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دیں تاکہ ہم مزید تیاری کے ساتھ آ سکیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھا کہ آپ کیا کہتے ہیں اس حوالے سے، جس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے اپیلوں کی بحالی سے متعلق درخواستیں پڑھی ہیں اور ہمیں ان درخواستوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہ اکہ اگر حفاظتی ضمانت میں توسیع کردی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وہی نیب ہے، جس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں ان مقدمات میں 5 سال بعد واپس آیا ہوں، 5 پانچ سال بعد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا یہ وہی نیب ہے،کیا نیب کہہ رہی ہے کہ کرپٹ پریکٹسز کے الزامات برقرار رہیں لیکن ملزم کو چھوڑ دیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم چیئرمین نیب سے پوچھ لیتے ہیں کہ آپ پبلک ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر مخالفت نہیں کرتی تو نیب ریفرنسز واپس ہی کیوں نہیں لیتے۔نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دئیے۔عدالت نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دوبارہ پوچھتے ہیں کیا آپ گرفتار کرنا چاہتے ہیں، نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ گرفتار نہیں کرنا چاہتے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کے درمیان مکالمہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ آپ کوئی واضح پوزیشن لیں، یہ آپ کے ادارے کے لیے بہت بہت برا ہے، ہمیں آئندہ سماعت پر اپنی واضح پوزیشن بتائیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو کل سربمہر لفافے میں ہمیں اپنے مؤقف سے آگاہ کر دیں۔اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ وقت تھوڑا زیادہ دیجیے گا، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ معاملے کو نہیں لٹکائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستیں بحال کرنے کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کیا اور جمعرات 26 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔عدالت نے قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں بھی جمعرات تک توسیع کردی۔اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیر اعظم نواز شریف توشہ خانہ کیس میں چار سال بعد احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش ہوئے جہاں ان کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف آج سرنڈر کرنے کی غرض سے اسلام آباد ہائی کورٹ اور احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش ہوئے۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی۔عدالت کی جانب سے نواز شریف کی حاضری لگانے کی ہدایت کی گئی، جج محمد بشیر نے کہا کہ ابھی دستخط کروا لیں، وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ باہر سڑکیں بند ہیں، عوام ہی عوام ہیں، جج نے استفسار کیا کہ میاں نواز شریف کدھر ہیں، ایڈووکیٹ چوہدری عبدالخالق تھند نے جواب دیا کہ وہ آچکے ہیں کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔نواز شریف سے عدالتی پیپر پر دستخط کرا لیے گئے، اس دوران کمرہ عدالت میں شور شرابہ اور دھکم پیل کی کیفیت دیکھی گئی جس پر تنگ آکر عدالت نے نواز شریف کو کمرہ عدالت سے واپس جانے کی ہدایت کر دی۔عدالت سے اجازت ملنے کے بعد نواز شریف کمرہ عدالت سے واپس روانہ ہوگئے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے سرنڈر کر دیا ان کے وارنٹ مسترد کر دیں، وارنٹ مسترد ہوں گے تو ٹرائل آگے چلے گا۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کی دس لاکھ روپے مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی، سابق وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروا دیے۔وکیل میاں نواز شریف نے کہا کہ پلیڈر کی درخواست دائر کی ہے، جج نے استفسار کیا کہ کیا اس پر آج ہی سماعت کرنی ہے، وکیل نے جواب دیا کہ جی آج ہی سماعت کی استدعا ہے، جج نے استفسار کیا کہ پلیڈر کون ہے، وکیل نواز شریف نے جواب دیا کہ وکیل رانا محمد عرفان پلیڈر ہیں جو عدالت میں موجود ہیں، جب آپ حکم کریں گے نواز شریف کمرہ عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔اس کے ساتھ عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی۔عدالت نے جائیداد ضبطی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 نومبر کو جائیداد ضبطی کی درخواست پر دلائل طلب کر لیے۔نواز شریف کے وکیل کی جانب سے سیاسی دلائل دینے کی کوشش کی گئی جس پر احتساب عدالت کے جج نے وکیل قاضی مصباح کو سیاسی دلائل دینے سے روک دیا۔