اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ فوج اس قسم کے معاملات ہینڈل کرنے کیلئے نہیں ہوتی،اس وقت ہم بڑے ہی عجیب سے حالات سے گزر رہے تھے، کچھ افراد آکر فیض آباد پل پر بیٹھ گئے، ہمیں کہا گیا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کریں،میں نے احسن اقبال کو دستخط سے منع کیا اور کہا کہ ہمیں ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں، احسن اقبال نے موقع کی مناسبت سے جو مناسب سمجھا فیصلہ کیا، حمایت کرتا ہوں،چوہدری نثار کا گھر جلانے کیلئے بڑا منظم حملہ ہوا جو پسپا کیا گیا، پنجاب پولیس نہیں آئی، یاد نہیں رینجرز طلب کی تھی یا نہیں مگر وہ بھی نہیں آئی تھی،قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں معاملہ ختم کرنے کے لیے زاہد حامد کے استعفے کا فیصلہ ہوا۔
ایک انٹرویومیں شاہد خاقان عباسی نے فیض آباد دھرنے سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کرتے ہوئے اس وقت کی تمام سرکاری مشینری کے رازوں سے پردا اٹھا دیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا تھا ملک کا معاملہ ہے، ہم سب کو مل کر طے کرنا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ دھرنے کے وقت حالت یہ تھی کہ دارالحکومت کی سب سے بڑی سڑک مفلوج کردی گئی تھی، مفتاح اسماعیل 3 ،4 ممالک کا دورہ کر رہے تھے ہر جگہ یہی سوال ہوتا تھا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم بڑے ہی عجیب سے حالات سے گزر رہے تھے، کچھ افراد آکر فیض آباد پل پر بیٹھ گئے، ہمیں کہا گیا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کریں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بات چیت چلتی رہی وہاں سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریں کاٹ دی گئیں، ہم نے منصوبہ بنایا کہ کھانا اور جو لوگ ان کو ملنے آتے ہیں ان کا آنا جانا بند کردیں۔انہوںنے کہاکہ اسلام آبادہائیکورٹ نے ایک دن کا نوٹس دیا اور کہا کہ اس جگہ کو خالی کرائیں، عدالت میں آئی جی پولیس کو کہا گیا کہ کارروائی کریں۔شاہد خاقان نے بتایا کہ احسن اقبال نے آئی جی پولیس کو کہا کہ کارروائی نہ کریں ہم نے منصوبہ بندی کی ہے اس کے تحت کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح پولیس نے وہاں ایکشن کیا وہ بھی قابل دید تھا، پولیس کی ساری کارروائی میں نے دیکھی، پنجاب پولیس کی کوئی گاڑی وہاں نہیں تھی۔
شاہد خاقان نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے 250 اہلکار تھے، آرام سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے، وہاں پل کی طرف سے سخت کارروائی ہوئی، آنسو گیس کے شیل واپس مارے گئے اور پولیس پسپا ہوئی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب پولیس کی ایک گاڑی چاندنی چوک پر کھڑی تھی، چوہدری نثار کے گھر پر جتھے نے حملہ کیا، روکنے کیلئے پولیس نہیں تھی۔انہوںنے کہاکہ دھرنے والوں کے آنے پر پنجاب پولیس نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، پنجاب پولیس نے دھرنے والوں کو فیض آباد پر چھوڑ دیا تھا، پنجاب پولیس کی طرف سے اس وقت ہمیں کوئی سپورٹ نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جانی نقصان نہ ہوجائے، ہماری منصوبہ بندی تھی کہ آرام سے معاملے کو ہینڈل کریں گے، جب کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا تو اسلام آباد پولیس بد دلی سے آئی، اسلام آباد پولیس کو تو مظاہرین نے منتشر کر دیا تھا، عجیب کیفیت تھی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دھرنے کے وقت کارروائی حکومت کی مرضی سے نہیں ہوئی، پٹیشن کی بنیاد پر نوٹس کیا گیا، آئی جی پولیس اور کمشنر کو طلب کیا گیا، وزیر داخلہ کی مرضی کے برخلاف حکم دیا گیا کہ ان کو منتشر کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ میں نے احسن اقبال کو دستخط سے منع کیا اور کہا کہ ہمیں ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں، احسن اقبال نے موقع کی مناسبت سے جو مناسب سمجھا فیصلہ کیا، حمایت کرتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ یہ غیر معمولی بات تھی کہ سرکاری، فوجی افسران اور منسٹر کے دستخط کیے جائیں، اس طرح کے معاہدوں پر عام طور پر ڈی سی یا کمشنر دستخط کرتے ہیں، یہ معاملات کافی پیچیدہ ہیں مجھے عدالت طلب کرتی ہے تو حقائق سامنے رکھ دوں گا۔انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار کا گھر جلانے کیلئے بڑا منظم حملہ ہوا جو پسپا کیا گیا، پنجاب پولیس نہیں آئی، یاد نہیں رینجرز طلب کی تھی یا نہیں مگر وہ بھی نہیں آئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں معاملہ ختم کرنے کے لیے زاہد حامد کے استعفے کا فیصلہ ہوا، مشاورت کے بعد یہی بات کہی گئی کہ معاملے کو ختم کرنے کے لیے استعفیٰ ضروری ہے، یہ ہماری تاریخ کے سیاہ باب میں ایک اور اضافہ تھا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ چینل بند کرنے سے متعلق کسی بات کا علم نہیں، نہ مجھے یاد ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، اس معاملے سے علیحدہ ایک میٹنگ میں پوچھا کہ چینلز جو یہ سب کرتے ہیں پیمرا کارروائی کیوں نہیں کرتا؟انہوںنے کہاکہ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ کیا کارروائی کروں؟ عدالت اسٹے آرڈر دیتی ہے اور پھر فیصلہ ہی نہیں کرتی، پاکستان میں چینل پیمرا یا حکومت بند نہیں کرتی، مریم اورنگزیب وزیر تھیں، انہوں نے ہی چینلز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دھرنا کیس فیصلہ، عدالت نے کارروائی کرنی ہے تو حقائق کی بنیاد پر کرے، ہر بات کی تفتیش ہونی چاہیے، چاہے عدالت یا حکومت تفتیش کرے۔سینئر رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہی، 16ماہ ن لیگ کی حکومت رہی، تفتیش کرسکتی تھی، اب نگراں حکومت ہے یہ تفتیش کرلیے، میں، احسن اقبال اور مریم اورنگزیب حاضر ہیں ہم حقائق بتا دیں گے۔انہوںنے کہاکہ میری جماعت کے پاس یا کسی کے پاس ثبوت ہے تو ذمے داری ہے کہ پرچہ درج کرائیں اور کارروائی ہو، ہم حالات کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور اس میں ہم سب شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں کوئٹہ گیا بلوچستان کی پوری اسمبلی غائب تھی، صرف ایک خاتون ڈپٹی اسپیکر راحیلہ اور گورنر موجود تھے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سینیٹ کا اور چیئرمین سینیٹ کا الیکشن چوری ہوا، ہماری جماعت کا موقف اگر اب تبدیل ہوا ہے تو عوام کو بتانا پڑے گا کہ کیوں تبدیل ہوا، آج ملک جہاں کھڑا ہے بہت بڑا ہاتھ 2018 کے الیکشن کی چوری کا ہے۔انہوں نے کہا کہ 16ماہ کی کارکردگی کا اثر ن لیگ کے ووٹ پر پڑے گا، 16 ماہ کی کارکردگی کا جواب عوام کو دینا پڑے گا، ووٹر سوال کرتے ہیں اس کے جواب ہمارے پاس نہیں ہوتے، جواب دینا پڑیں گے۔