اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی انصار عباسی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ جو صورتحال نظر آ رہی ہے اُس کے مطابق اگر عمران خان مائنس اور تحریک انصاف مکمل طور پر قابو میں آ گئی تو انتخابات اکتوبر میں ہو سکتے ہیں ورنہ ممکنہ طور پر الیکشن آگے جا سکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن کون جیتتا ہے یہ اتنا اہم نہیں لیکن اصل توجہ اس نکتہ پر ہو گی کہ عمران خان انتخابات سے ہر حال میں باہر ہوں اور عمران خان کی حمایت یافتہ تحریک انصاف انتخابات جیتنے کے قابل نہ ہو۔
عمران خان اور اُن کےچند ایک ساتھیوں کو شاید ابھی تک ادراک نہیں کہ9مئی کو کیا ہوا ،کتنا خطرناک ہوا اور یہ پاک فوج پر کتنا بڑا حملہ تھا ، جسے تحریک انصاف تو بھلانا چاہے گی لیکن فوج اُسے کبھی نہیں بھلا سکتی۔ دو روز قبل تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ تحریک انصاف نے مذاکراتی ٹیم پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے نہیں بنائی بلکہ اس کا مقصد اصل قوتوں یعنی فوج سے مذاکرات کرنا ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ان حالات میں اور 9مئی کے واقعات کے بعد بھی تحریک انصاف یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ فوج عمران خان یا اُن کی مذاکراتی ٹیم سے بات کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو 9 مئی سے پہلے بھی فوج سے مذاکرات کا رستہ نہیں مل رہا تھا اب تو ایسا قطعی ممکن نظر نہیں آتا۔ عمران خان تو پہلے ہی قابل اعتبار نہیں رہے تھے، اب تو وہ ناقابل قبول ہو چکےہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اُس مقبولیت کا کیا فائدہ جو مقتدر حلقوں کو قبول ہی نہ ہو۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف سے مذاکرات کا مطلب 9مئی کے واقعات کو شہ دینے کے برابر ہو گا۔
کیاپاکستان دوبارہ 9 مئی کا دہرایا جانا برداشت کر سکتا ہے۔؟ جو کچھ 9 مئی کو ہوا اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو اس ملک میں خانہ جنگی ہو جاتی ۔اسی لئے ریاست کی طر ف سے یہ پیغام واضح ہے کہ نہ تو 9مئی کے واقعات میں شامل افراد اورمنصوبہ سازوں وغیرہ کو چھوڑا جائے گا اور نہ ہی عمران خان کی سیاست کواوپن فیلڈ دیاجا ئے گا۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف کو شدید توڑ پھوڑ کا سامنا ہے۔ا
س صورت حال سے عمران خان یقیناًپریشان ہوں گے ۔یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اُن کو شاید اس بات کا بھی پچھتاواہے کہ اُنہوںنےاپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج مخالف بیانیہ کیوں بنایا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے فوج مخالف بیانیہ کے پیچھے تحریک انصاف کے پانچ رہنمائوں کا کافی ہاتھ تھا اور وہ پانچوں گزشتہ ماہ تحریک انصاف کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن جتنا میں عمران خان کو جانتا ہوں وہ اب بھی فوج مخالف بیانیہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کبھی خاموشی اختیار کر سکتے ہیں، کبھی نام لئے بغیر بات کریں گے لیکن اُن کے قریب سے قریب ترین بھی کوئی فرد یہ گاڑنٹی نہیں دے سکتا کہ عمران خان اب فوج مخالف کوئی بات نہیں کریں گے۔ کیا وہ فوج مخالف اپنے بیانیے پر شرمندہ ہیں؟ ایسا بھی اُنہوں نے اب تک کسی انٹرویو میں نہیں کہا۔
وہ عمران خان جو کسی بھی لمحہ کوئی خطرناک سے خطرناک بات کر سکتا ہے اُسے کیا ریاست دوبارہ وزیراعظم بننے دے گی؟ مجھے تو ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا اور یہی رائے اکثر تجزیہ کاروں کی ہے بلکہ تحریک انصاف کے رہنما بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ عمران خان کو بھی یقین ہے کہ وہ مائنس ون فارمولے کا شکار ہو جائیں گے۔ایسے میں عمران خان انتخابی سیاست سے خود پیچھے ہٹ کر تحریک انصاف کو بچانےکی ایک کوشش کر سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن نہ ہو۔ لگتاہے کہ عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ پہنچا ہے ۔