لندن (این این آئی)لندن کی ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو(نیب)اور حکومت پاکستان کو اثاثہ برآمدگی فرم براڈشیٹ ایل ایل سی کو آئندہ ہفتے تک 12 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق دونوں فریقین کا موقف سننے کے بعد عدالت نے نیب اور پاکستانی حکومت کو 12 لاکھ 22 ہزار 37 ڈالر اور 110 پائونڈز کے ساتھ ساتھ نیب کے وکیل کو دعویدار کی
درخواست کی لاگت کے 26 ہزار 296 پائونڈ 10 اگست کی شام ساڑھے 4 بجے تک ادا کرنے کا حکم دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ نیب کی وکالت فرم ایلین اینڈ اووری حکومت پاکستان سے موصول ہونے والے فنڈز 13 اگست کی شام تک براڈشیٹ کی وکالت فرم ایل ایل سی سولیسٹرز کروویل اینڈ مورنگ کو ادا کرے گی۔فیصلے میں کہا گیا کہ اگر حکومت پاکستان اور نیب نے اپنے وکلا کو براڈشیٹ کو ادائیگی کے لیے رقم فراہم نہ کی تو براڈ شیٹ کین وکیل یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل یو کے)کو نوٹیفائی کرے گی اور پھر بینک اس رقم کی ادائیگی کرے گا۔ادائیگی میں ناکامی کی صورت میں تھرڈ پارٹی ڈیٹ آرڈر لاگو ہوجائے گا جو کریڈیٹر کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جس کے پاس بھی رقم ہے اس سے لے لے۔نیب کی جانب سے وکلا نے 12 لاکھ 22 ہزار 37 ڈالر اور 110 پائونڈز ادا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن براڈ شیٹ کی جانب سے 33 ہزار پائونڈ سود اور 35 ہزار پائونڈ کے قانونی اخراجات ادا کرنے کی مخالفت کی۔چنانچہ عدالت نے حکم دیا کہ 12 لاکھ ڈالر اور 110 پائونڈ کی ادائیگی کے ساتھ نیب اور حکومت پاکستان براڈ کو 26 ہزار 296 پائونڈز بھی ادا کریں گے، یہ رقم براڈشیٹ کے سود اور اخراجات کی مد میں کیے گئے مطالبے سے کم ہے۔خیال رہے کہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے تقریبا 20 سال قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے براڈشیٹ سے معاہدہ کیا تھا۔دسمبر 2018 میں برطانوی عدالت نے واحد ثالث کے طور پر حکومت پاکستان کو براڈ شیٹ کو 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔جولائی 2019 میں حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی جو ناکام رہی، ثالثی عدالت کے مطابق پاکستان اور قومی احتساب بیورونے غلط طور پر براڈ شیٹ کے ساتھ اثاثہ برآمدی کا معاہدہ ختم کیا اور کمپنی کو نقصان کا ہرجانہ ادا کیے جانے کا حکم دیا۔جس کے بعد براڈ شیٹ مذکورہ رقم کی ادائیگی کے لیے 6 ماہ تک نیب عہدیداروں کے علاوہ اٹارنی جنرل کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔اکتوبر 2019 میں کاوے موسوی نے 2 کروڑ 20 لاکھ ادائیگی کا مطالبہ کرنے کے لیے شہزاد اکبر سے ملاقات کی جنہوں نے قومی خزانے کا نقصان کم کرنے کے لیے رعایت طلب کی۔کاوے موسی نے رعایت کی درخواست مسترد کردی اور ادائیگی پر عملدرآمد کے لیے عدالت سے رجوع کی
جس پر کمپنی دسمبر 2019 میں تھرڈ پارٹی ڈیٹ آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس نے حکومت پاکستان کو 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بمع سود براڈ شیٹ کو ادا کرنے پر مجبور کیا۔اس وقت سے لے کر اثاثہ برآمدگی کمپنی اپنی خدمات کی ادائیگی محفوظ بنانے کے لیے برطانیہ میں حکومت پاکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد اداروں کو ہدف بنا چکی ہے۔براڈ شیٹ نے ایون فیلڈ ہائوس کے 4 فلیٹس پر بھی
دعوی کیا تھا جسے بعد میں عدالت نے خارج کردیا تھا تاہم کمپنی نے حکومت پاکستان کو خط لکھ کر نیب کے ذمہ واجب الادا رقم برآمد کروانے کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اثاثے ضبط کروانے کی بھی دھمکی دی تھی۔قل ازیں حکومت پاکستان سے اپنے واجبات حاصل کرنے کے لیے براڈ شیٹ کے وکلا نے شریف لیگل ٹیم سے بھی رابطہ کیا تھا جو مسترد ہوگیا۔رواں برس جنوری میں برطانیہ کی ایک ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے براڈ شیٹ کو جرمانے کی عدم ادائیگی پر پاکستان ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالر منہا کرنے کا حکم دیا تھا۔