اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی افرادی قوت کی اہم ترین عرب ممالک (سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات) کی جانب برآمد کو زبردست دھچکا لگا ہے، انہی ممالک سے پاکستان کی ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ آتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں پر پابندی، جو گزشتہ
سال نومبر میں عائد کی گئی تھی، بدستور عائد ہے۔ چند غیر معمولی کیسز میں تھوڑے ویزے اسی عرصہ کے دوران جاری کیے گئے۔ سعودی عرب نے بھی فروری کے پہلے ہفتے سے پاکستان سمیت 20 ممالک کیلئے ویزوں کے اجرا پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ صرف سفارت کاروں، سعودی شہریوں اور کورونا سے نمٹنے کیلئے طبی عملے اور ان کے اہلخانہ کو ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کی عائد کردہ پابندی کم از کم مزید ایک ماہ کیلئے جاری رہے گی۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان سمیت 13 ممالک کیلئے براہِ راست ورک ویزے کے اجرا پر پابندی عائد کی تھی لیکن سعودی عرب کی جانب سے عائد کردہ داخلے کی پابندی بھی پاکستانی افرادی قوت کی برادر اسلامی ممالک کی طرف برآمد کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے معاون برائے اوور سیز پاکستانیز اور افرادی قوت ذلفی بخاری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کی ورک ویزوں پر پابندی کے حوالے سے مداخلت کی ہے اور رمضان المبارک کے بعد بڑی خبر سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ
عرب امارات نے سرکاری اور نیم سرکاری ملازمتوں کیلئے ویزے جاری کرنا شروع کر دیے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کاشف نور نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے رابطہ کیے
جانے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ابو ظہبی کا دورہ کیا تھا۔ کاشف نور نے کہا کہ اگرچہ متحدہ عرب امارات کی عائد کردہ پابندی غیر اعلانیہ ہے لیکن شاہ محمود کو بتایا تھا کہ وہ لوگ پاکستانی ورکرز کیلئے ویزے کی پابندی اٹھانے پر غور کریں گے۔ تاہم، نور نے کہا کہ چند روز قبل ہی انہیں
بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ایک بڑی کمپنی ٹرانس گارڈ نے پاکستانی ورکرز کو کچھ ویزے جاری کیے ہیں۔ نور نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی طرف افرادی قوت کی برآمد کے معاملے میں کورونا وائرس سب سے بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد
کی صورتحال دیکھیں تو افرادی قوت کی برآمد کے اعداد و شمار میں بڑا فرق ہے۔ تاہم، بحرین، اومان اور قطر کیلئے افرادی قوت کی برآمد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی وزارت صحت کو ایک تجویز بھیجی ہے کہ پاکستانی ورکرز کو کورونا ویکسین لگانے کیلئے پالیسی جاری کی
جائے تاکہ میزبان ممالک انہیں اپنے یہاں ملازمت کی اجازت دیں۔ پاکستانی ملازمین اور ساتھ ہی ملک کی ترسیلات زر کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اہمیت کے حامل ممالک ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالرز آتے ہیں جبکہ سعودی عرب سے پاکستانی ورکرز سالانہ
ساڑھے پانچ ارب ڈالرز بھجواتے ہیں۔ یہاں حکام اس بات پر پریشان ہیں کہ آخر متحدہ عرب امارات نے ایسا فیصلہ کیوں کیا حالانکہ پاکستان اور اس کے عوام کی بھلائی کے معاملے میں متحدہ عرب امارات کی خدمات کی تاریخ بہت وسیع ہے۔ متحدہ عرب امارات نے نومبر 2019 میں جو پابندی عائد کی
تھی اس پر کئی لوگ یہاں حیران ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت پاکستان پر پابندی عائد کی گئی تھی اس وقت پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کورونا وائرس نے بہت زیادہ تباہی مچا دی تھی لیکن متحدہ عرب امارات نے ویزوں کے اجرا میں اس پر پابندی عائد نہیں کی تھی۔ کچھ لوگوں کی
رائے ہے کہ پاکستان پر عائد کردہ پابندی میں کورونا کے علاوہ اور کوئی وجہ بھی موجود ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ، متحدہ عرب امارات پاکستان کی مختلف طریقوں سے مدد کے معاملے میں بہت زیادہ سخاوت کا اظہار کرتا رہا ہے جس میں پاکستانیوں کو بڑی تعداد میں اپنے یہاں ملازمت دینا بھی شامل
ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے پاکستان میں تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر کے شعبہ جات میں کئی انسانی اور فلاحی پروجیکٹس بھی شروع کر رکھے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کھل کر ایمرجنسی ریلیف پروگرامز اور بحرانی حالات میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے جن میں 2005
کے تباہ کن زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے بعد امدادی پروجیکٹس شامل ہیں۔ گزشتہ سال متحدہ عرب امارات نے تین امدادی طیارے بھجوائے تھے جن میں چالیس ٹن طبی سامان اور خوراک شامل تھی، اس امداد کا مقصد کورونا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے پاکستان کے اقدامات میں ساتھ دینا تھا۔ اس
کے ساتھ، متحدہ عرب امارات نے پاکستانی اسٹیٹ بینک میں دو ارب ڈالرز بھی جمع کرائے تھے تاکہ پاکستان کی مالی و مالیاتی مشکلات میں اسے سہارا دیا جا سکے۔ متحدہ عرب امارات کی پاکستان اسسٹنس پروگرام کے تحت 600 ملین ڈالرز مالیت کے مختلف انسانی و ترقیاتی پروجیکٹس کامیابی کے ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مکمل کیے جا چکے ہیں۔