اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جسٹس (ر)عظمت سعید کی قیادت میں براڈ شیٹ کمیشن نے واضح کردیا ہے کہ کسی بھی وزارت ، اتھارٹی، سرکاری افسر یا حکومتی اہلکار کی جانب سے زبانی احکامات کو مستقبل حوالے کے طور پر فائل ریکارڈ پر نوٹ کے حصے ضبط تحریر لانا چاہئے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق کمیشن نے یہ
بھی نوٹ کیا کہ حکومتی نظام کو اپنی مرضی کے معنی دینے سے سنگین خرابیاں اور خامیاں جنم لیتی ہیں، جس سے ملک کی ساکھ خراب ہوتی اور ملک کا مالی نقصان ہوتا ہے، اگر حکومتی ضابطہ کار پر سختی سے عمل درآمد ہوتویہ خامیاں اور خرابیاں پیدا ہی نہ ہوں اور ان سے بچا جاسکتا ہے۔ جس سے ملکی ساکھ، اور قومی خزانے کو بچایا جاسکتا ہے۔ کمیشن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیاسی فائدے اور احکامات پر عمل درآمد کے لئے غیر ضروری دبائو کے نتیجے میں غلط فیصلے ہوتے ہیں۔جن سے قومی اور بین الاقوامی فورمز پر ملکی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ رولز آف بزنس 1973میں وضع کردہ طریقہ کار طے شدہ ہے ، لہذا یہ ہر سیاسی حکومت ، وزارت اور عملے کے لئے واجب تعمیل ہے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارتیں اور ڈویژن رولز آف بزنس کے تحت وزارت خزانہ و خارجہ امور سے مشاورت کریں
تاکہ بین الاقوامی اور تجارتی سمجھوتوں سے قبل وزارت قانون سے قانونی موقف معلوم کیا جاسکے۔ بین الاقوامی ثالثی کی شقوں سے متعلق معاملات وزارت قانون کی جانب سے اٹارنی جنرل کے دفتر کو پیش کردئیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی محکمہ یا خودمختار ادارہ کو بین الاقوامی سمجھوتہ کرنے
کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ رولز آف بزنس کے تحت مشاورتی عمل لازمی ہے۔ کمیشن نے مزید کہا کہ مشاورت کا اصول بین الاقوامی یا مقامی این جی اوز پر بھی لاگو ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ اقتصادی امور ڈویژن اور وزارت داخلہ سے بھی صلاح و مشورہ ہونا چاہئے۔ بین الاقوامی معاہدہ
سرمایہ کاری سمجھوتوں پر مشاورت کے سلسلے میں وزارت قانون کے کردار کی رولز آف بزنس میں مزید وضاحت ہونی چاہئے۔ کمیشن نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ وزارتیں، ڈویژن ، متعلقہ محکمے ا ور خودمختار ادارے اہم امور پر ریکارڈ سنبھال کر نہیں رکھتے۔