اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک، آن لائن)لاہور یونیورسٹی میں ایک دوسرے کو کھلے عام شادی کی پیشکش کرنے پر یونیورسٹی سے نکالے جانے والے جوڑے نے شادی کرلی ، سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ایک اخباری خبر کو لڑکی نے شیئرکرتے ہوئے لکھا کہ ” جزاک اللہ” ۔ اس اقدام سے تصدیق ہوتی ہے کہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ہیں ۔
دلہن نے دیگر لوگوں کا بھی شکریہ اداکیا۔اس سے قبل حدیقہ اور شہریار کے اپنے اپنے اکائونٹ سے الحمداللہ کا ٹوئٹ بھی سامنے آیا تھا۔یادرہے کہ پروپوزل کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی تھی جبکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں درسگاہ سے ہی بے دخل کردیا تھا جس کے بعد متعدد معروف شخصیات کی جانب سے ان کی حمایت بھی کی گئی۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں آنے والے لڑکے شہریار کا لڑکی کی حمایت میں بیان سامنے آیا تھا۔نوجوان نے کہا تھا کہ لڑکی معصوم ہے لہذا اس کی تصاویر یوں سوشل میڈیا پر وائرل نہ کی جائیں۔شہریار نے لکھا کہ لڑکی کے کردار کے بارے میں کوئی بات نہ کریں کیونکہ اس سے اسے اور اس کے اہل خانہ کو اذیت پہنچے گی ، وہ پہلے ہی پریشان ہیں اور اپنی بیٹی کے بارے میں فکر مند ہیں۔دوسری جانب وفاقی وزارت انسانی حقوق نے لاہور یونیورسٹی میں لڑکی کے پروپوز کرنے کے بعد طالب علم اور طالبہ کو فارغ کرنے کا نوٹس لے لیا۔
وفاقی پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق لال چند مالہی نے گورنر پنجاب اوریونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر دونوں طلبا کو دوبارہ داخلہ دینے کا مطالبہ کر دیا۔پارلیمانی سیکرٹری انسانی حقوق نے کہا کہ دو طلبہ کی جانب سے ایک دوسرے کو پروپوز کرنا ناجائز کام نہیں،
جوڑے کو فارغ کرنے سے پہلے ان کا موقف لینا ضروری تھا، اخلاقی اقدار کو کس صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا سخت ایکشن لینے کے اثرات اچھے نہیں ہونگے، یونیورسٹی کے اس شدید ردعمل کی وجہ سے دونوں طلبا کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔لال چند مالہی نے
کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے طلباء کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بجائے یونیورسٹی میں مشاورتی سنٹرز کھولنے چاہئیں، اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، لہذا داخلہ فوری طور پر بحال کیا جائے۔