اسلام آباد (این این آئی)مسلم لیگ (ن)کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ حکومت کو ناکام کرنے کیلئے پی ڈی ایم نے سینیٹ میں ووٹ دیا، حکومت کے 17 ارکان نے بھی حکومتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا۔ایک انٹرویو میں مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو اب استعفیٰ دینا چاہئے اور اپنی ناکامی کا
اعتراف کرنا چاہئے۔رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ہماری نظر میں عدم اعتماد ہوچکا ہے، ہم حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھائیں گے۔رہنما نون لیگ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ لوگوں کو 50 -50 کروڑ ڈویلپمنٹ فنڈ کی رشوت دی گئی۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ لوگ منتخب نمائندوں کا احترام نہیں کرتے، غیر منتخب ٹولہ مسلط ہے۔انہوں نے بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کے چیئرمین سینیٹ کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کااعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ارکان نے اعتماد کا اظہار نہ کیا تو اپوزیشن میں چلا جاؤں گا،اگر اقتدار میں نہ ہوں مجھے کوئی فکر نہیں،جب تک پیسہ واپس نہیں کرینگے،کسی کونہیں چھوڑونگا، قوم کو باہر نکالونگا،ملک عظیم تب بنے گا جب سارے ڈاکو جیلوں میں ہونگے،الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا؟،سینیٹ انتخابات میں 30، 40 سال سے پیسہ چل رہا ہے، اب سارا ڈرامہ عبدالحفیظ شیخ کی نشست کیلئے کیا گیا؟،نہ بلیک میل ہونگا اور نہ ہی این آراو دونگا۔ جمعرات کو سینٹ کے الیکشن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ سینیٹ کے انتخابات جس طرح ہوئے ہیں انہی سے ملک کے مسائل کی وجہ سمجھ آجاتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ چھ سال پہلے تحریک انصاف نے سینٹ انتخابات میں حصہ لیا، خیبر پختون خوا میں میری حکومت تھی،تب اندازہ ہوا سینٹ کے الیکشن میں پیسہ چلتا ہے،یہ تیس چال سال سے پیسہ چلتا آرہا ہے، جو سینیٹر بننا چاہتا ہے وہ پیسہ استعمال کرتا ہے وہ ممبران پارلیمنٹ کو خریدتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ مجھے حیرت ہوئی
ہے کہ یہ جمہوریت کے ساتھ کیسا مذاق ہورہا ہے، سینٹ کے اندر ملک کی لیڈر شپ آتی ہے اوران میں سے پاکستان سے لیڈر شپ آتی ہے ان میں سے وزیر، وزیر اعظم بنتے ہیں، مجھے تب سے حیرت ہوئی کہ ایک سینیٹر رشوت دیکر سینیٹر بن رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ جو ضمیر بیچ رہے ہیں یہ کونسی جمہوریت ہے؟ اس کے بعد میں نے تب سے مہم چلائی اور کہاکہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ ہونی چاہیے۔