اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے بارے کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے سیکرٹری کی جانب سے جمع کروایا گیا خط مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کے دستخط کیساتھ سیکرٹری خزانہ سے فنڈز سے متعلق واضح جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، خط میں عدالتی سوالات کے
جوابات نہیں دیئے گئے،وزیراعظم نے شائد فنڈز دینے کیلئے دروازہ کھلا رکھنے کی کوشش کی ہے۔تفصیلات کے مطابق بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی ۔ عدالت میں سندھ کے سوا تمام صوبوں نے اپنے جواب جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا ۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی کی ترقیاتی سکیموں پر عمل آئین سے مشروط ہے، وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ سرکاری فنڈز کا غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا جبکہ کسی رکن اسمبلی کو پیسہ نہیں دیا جائے گا۔اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وزیراعظم کے سیکرٹری کا خط کس نے ڈرافٹ کیا جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ وکیل اور موکل کا آپس کا معاملہ ہے۔اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ خط کی انگریزی درست نہیں ہے، خط میں عدالتی سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے، لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، وزیراعظم نے شائد فنڈز دینے کیلئے دروازہ کھلا رکھنے کی کوشش کی۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر روز وزارت اطلاعات سے معلومات کی بھرمار ہوتی ہے، اخبار میں جو خبر شائع ہوئی ہے اگر وہ غلط ہے تو وزارت اطلاعات یا وزیراعظم نے اب تک اس اخباری خبر کی تردید کیوں نہیں کی، سارے میڈیا نے خبر چلا دی اور وزیراعظم خاموش ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم ہر خبر کی تردید کرنے لگ گئے تو کوئی اور کام نہیں کر سکیں گے، اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم یا اپنی بات پر قائم رہیں یا کہہ دیں کہ ان سے غلطی ہوگئی، وزیراعظم اپنے سیکریٹری کے پیچھے کیوں چھپ رہے ہیں؟۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ حکومت کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے کے بارے میں استفسار کیا
جس پر صوبائی حکومت کے وکیل نے کہا کہ سندھ حکومت نے کسی رکن اسمبلی کو فنڈز نہیں دئیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کو جواب تحریری طور پر جمع کرانا چاہئے تھا۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ حکومت سندھ بھی ترقیاتی فنڈز سے متعلق اپنا جواب جمع کرائے تاکہ اس کا جائزہ لے سکیں۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ
وزرائے اعلیٰ سمیت کسی رکن اسمبلی کے پاس صوابدیدی فنڈز نہیں ہے ۔ بلوچستان حکومت نے بتایا کہ صوبے کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 106 ارب روپے ہے، ترقیاتی بجٹ میں وفاق اور غیرملکی امداد بھی شامل ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز پہلے ہی ختم کیے جا چکے ہیں، وزیراعلی سمیت اراکین اسمبلی کا ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں کوئی کردار نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ
اعلی عدلیہ کے حکم پر وزیراعلیٰ کی ہدایت اور صوابدیدی فنڈز ختم کیے گئے ہیں۔ کے پی کے حکومت نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کا ترقیاتی بجٹ عوام کا پیسہ ہے جو صرف عوام پر خرچ کیا جاتا ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ سرکار کا پیسہ خرچ کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔سماعت کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کر دی۔سماعت کے
دوران عدالت نے سیکرٹری خزانہ سے واضح جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر وزیراعظم کے بھی دستخط ہوں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم رضاکارانہ طور پردستخط شدہ جواب جمع کرائیں گے لہٰذا حکم نامے میں دستخط کی شرط تحریر نہ کی جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی استدعامسترد کرتے ہوئے آرڈرمیں وزیراعظم کاجواب دستخطوں سے مشروط کردیا۔بعد ازاں کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔