پشاور (آن لائن) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا کشمیر کے حوالے سے بیان کشمیر اور کشمیری شہداء کے ساتھ غداری اور پاکستان کے ساتھ بے وفائی ہے۔سید علی گیلانی ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں ہم انہیں پاکستان سے
آزادی دے دیں گے۔ وزیراعظم نہ دستور سے آگاہ ہیں نہ ہی نیشنل انٹرسٹ سے آگاہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان 75 سال سے کشمیر کو اٹوٹ انگ کہہ رہا ہے لیکن ہمارے مسخرے آئے روز نئے نئے شوشے چھوڑ رہے ہیں۔ 5 فروری کو آرمی چیف کے بھارت سے مذاکرات کے بیان کا یہ موقع نہیں تھا۔ بھارت سرے سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ نہیں سمجھتا اور آپ اسے مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔ بھارت کی اس ظالمانہ حکمت عملی کا جواب مذاکرات نہیں جنگ کی تیاری ہے۔ کشمیر ہر پاکستانی کے جسم میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ہم کسی مسخرے یا اس کے پاپا کو ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے طول و عرض میں 4 لاکھ افراد نے این ٹی ایس کا ٹیسٹ دیا، نوجوانوں سے اربوں اور کھربوں روپے اکھٹے کئے گئے لیکن نوکریاں بیچ دی گئی ہیں۔ ہر وزیر اور ممبر نے بولی میں حصہ لیا ہے۔ پیسکو کی آسامیوں میں رشوت لینے کے ثبوت سینیٹ میں پیش کئے ہیں۔ پختون نوجوانوں کی تذلیل کے ذمہ دار عمران خان اور محمود خان ہیں۔ مقام چوک مردان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین میں 122 کروڑ عوام کے لیے 21 رکنی کابینہ ہے جبکہ عمران خان نے انتخابات سے پہلے اعلان کیا تھا کہ میں 12 رکنی مختصر کابینہ رکھوں گااوراس وقت
وزراء کی تعداد 54 ہے، صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے 57 ترجمان ہیں۔انہوں نے سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ کے لئے صدارتی آرڈیننس کااجراء ماورائے دستور عمل ہے۔دستور میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے جو کہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے کسی صدارتی آرڈیننس اور سپریم کورٹ کے ذریعے دستور میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کو بند ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ
دستورکے آرٹیکل 59(2)اور226 سینیٹ کے الیکشن میں خفیہ بیلٹ کی بات کرتا ہے۔کوئی صدارتی آرڈیننس یاسپریم کورٹ دستورمیں ترمیم نہیں کرسکتی۔اسکے لیے دستور پاکستان کے آرٹیکل259 کے تحت پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت لازمی ہے۔حکومت سیاسی مقاصد کے لئے فیڈریشن،آئین،پارلیمنٹ، اورجمہوریت سے کھیل رہی ہے۔جماعت اسلامی اس کی مذمت کرتی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس ماورائے دستوری عمل کے خلاف مزاحمت کریں گے۔