اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پنجاب کے 15 اضلاع میں ٹیوب ویلوں سے عوام کو فراہم کئے جانے والے پانی میں آلودگی کے اجزا ملے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد دل، معدے اور جگر سمیت، بخار، پھیپھڑوں اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم اربوں روپے خرچ کرنے
کے باوجود حکومتیں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔روزنامہ نوائے وقت میں معین اظہر کی شائع خبر کے مطابق محکمہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ کی طرف سے سیکرٹری بلدیات کو ایک رپورٹ ارسال کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 346 ٹیوب ویلوں سے پانی کے نمونے لئے گئے ہیں۔ جن شہروں میں نمونے لئے گئے ہیں ان میں لاہور، بہاولپور، سرگودھا، ڈی جی خان، فیصل آباد، ملتان، خوشاب، لیہ، میانوالی، گوجرانوالہ، ساہیوال ، خانیوال ، راولپنڈی، جھنگ اور منڈی بہائوالدین کے شہر شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ صوبے میں واسا کام کر رہے ہیں لیکن بلدیاتی ادارے بھی اپنی حدود میں ٹیوب ویل چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے کسی جگہ پر بھی پانی کی ریگولر مانیٹرنگ یا پانی کو صاف رکھنے کے لئے ایکسپرٹ بھرتی نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی کئی سال تک اگر ایک ٹیوب ویل سے آلودہ پانی آرہا ہے تو اس کو بہتر کرنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے نہ ہی ایک ادارے کے پاس سارے کام ہیں ۔ بہاولپور
کے تقریبا ً55 ٹیوب ویل ، ڈی جی خان کے 60 ٹیوب ویل ، لاہور اور قصور کے تقریبا41 ٹیوب ویل ، خوشاب کے 15 ٹیوب ویل، لیہ کے 10 ٹیوب ویل ، رحیم یار خان کے 12 ٹیوب ویل ، میانوالی کے 32 ٹیوب ویل،ملتان کے 12 ٹیوب ویل، راولپنڈی کے 32 ٹیوب ویل، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے
10 ٹیوب ویل، گوجرانوالہ کے 10 ٹیوب ویل اور دیگر شہروں کے ٹیوب ویلوںسے جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق کیمیائی طور پر ناجائز پانی، اور جراثیم والا پانی شامل ہے۔ ان علاقوں میں پانی میں کلورائیڈ، نائٹریٹ، سلفیٹ کی مقدار زیادہ پائی جانے کی رپورٹ ملی ہے۔
محکمہ بلدیات کے اعلی افسر نے کہا ہے کہ انہوں نے رپورٹ موصول ہوتے ہی بلدیاتی اداروں کے افسران کو پانی کی صاف فراہمی کے لئے ہدایات جاری کر دی ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر رپورٹ نہ ملتی تو آپ نے کوئی انتظام کیا تھا اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔