براڈ شیٹ سکینڈل بارے جواب طلب سوالات سینئر صحافی انصار عباسی نے نئی بحث چھیڑدی

17  جنوری‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)براڈ شیٹ اسکینڈل چند اہم سوالات جو پاکستان کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں ، وہ بدستور جواب طلب ہیں ۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے مقامی عدالت کی جانب سے منجمد کئے جانے سے قبل دس لاکھ ڈالرز

لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن منتقل کئے جانے کی کوئی وضاحت نہیں کی، سرکاری ذرائع جو ان معاملات میں حکومتی طریقہ کار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں اور ہائی کمیشنز میں حتیٰ کہ چند ہزار ڈالرز بھی فالتو یا اضافی نہیں ہوتے ۔جب سفارتی عملے کو ہفتوں تنخواہیں نہیں ملتیں تب ماہانہ رقوم فراہم کی جاتی ہیں ، لہذا کس طرح تین کروڑ ڈالرز لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود تھے کہ برطانوی حکام آسانی سے رہنے دیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لندن ہائی کورٹ کے فیصلے ہی سے قبل رقم پیشگی لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں منتقل ہو چکی تھی جو نا قا بل یقین بات ہے ۔آیا حکومت پاکستان نے پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں دانستہ منتقل کئے تھے تاکہ براڈ شیٹ آسانی سے اپنی رقم حاصل کر سکے جبکہ براڈ شیٹ کا مالک ایک معمر ایرانی انٹیلی جنس افسر بتایا جا تا ہے۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اب ضمنی بجٹ وزیر اعظم کی

منظوری کے بغیر مختص نہیں کیا جاسکتا ۔ آیا وزیر اعظم اور کابینہ نے ادائیگی کی منظوری دی تھی ۔اس کے علاوہ مذکورہ رقم کی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں منتقلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل کی گئی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بھی قبل ازوقت

زر مبادلہ منتقلی کے لئے اجازت درکار ہو تی ہے ، سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ آیا انہوں نے بھی اس کی منظوری دی تھی ؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کسی غلط کاری کی صورت میں وزیر خزانہ اور سیکرٹری خارجہ سے وضاحت طلب کی جا نی چاہئے کہ انہوں نے تین کروڑ ڈالرز پاکستانی

ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں ڈالنے کی اجازت کیسے دی ؟دنیا میں پاکستانی سفارتی مشنز میں اکائونٹس سفارتی اکائونٹ کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں جینوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہو تا ہے۔ برطانوی حکام ایک سفارتی اکائونٹ کو کس طرح ضبط کر سکتے ہیں یا پاکستانی حکومت

میں کوئی انہیں اجازت دے سکتا ہے ۔بین الاقوامی قانون مین کئی حقیقی اور قانونی سوالات اٹھتے ہیں ۔مالی انتظامی طریقہ کار اور مقامی قانون کے حوالے سے بھی حکومت پاکستان سے سوالات کے جوابات طلب ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتی اکائونٹ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔

اسے ریاست کا استثنیٰ حاصل ہو تا ہے اور اس کے حکم پر ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ختم نہیں کی جا سکتی جب تک وزیر اعظم اور کابینہ کی اجازت حاصل نہ ہو اور سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ثالثی جج کے فیصلے کو حکومت پاکستان نے عام کیوں نہیں کیا ۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…