کوئٹہ(این این آئی) آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین(سی بی اے) کے زیر اہتمام سینکڑوں مزدوروں نے واپڈا اور اس کے گروپ آف کمپنیز کی نجکاری کے خلاف اورمطالبات کے حق میں پریس کلب کوئٹہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین سے یونین کے مرکزی جوائنٹ صدر و صوبائی چیئرمین محمد رمضان اچکزئی،
صوبائی سیکریٹری عبدالحئی، وائس چیئرمین عبدالباقی لہڑی، جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی، فنانس سیکریٹری ملک محمد آصف،سیکریٹری نشر و اشاعت سید آغا محمد اور انٹرنیشنل ریکارڈ ہولڈر سائیکلسٹ عطاء اللہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی ایماء پر ملکی آئین اور اپنے منشور کے برخلاف یکطرفہ طور پر قومی اداروں کی نجکاری کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ آئین کے مطابق قومی اداروں کی نجکاری کرنے سے پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ سازی ضروری ہے اور ساتھ ہی اسٹیک ہولڈ ر جس میں سی بی اے یونین کا نمائندہ بھی شامل ہو ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے نجکاری کرنے یا نہ کرنے کے فیصلہ کرنا چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ جب عمران خان کنٹینر پرتبدیلی کیلئے 126 روز تک دھرنادے رہے تھے تو اس وقت ان کا موقف واضح تھا کہ قومی اداروں کی نجکاری کی بجائے ان میں اصلاحات لائی جائے اور ان کے ساتھ اسد عمر نے اسٹیل مل کے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہماری حکومت آئی اور حکومت نے اسٹیل مل کی نجکاری کی تو وہ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن آج پی ٹی آئی کی حکومت بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضے لے کر ان کے سامنے لیٹ چکی ہے۔ اسی لئے انہوں نے پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے،
ریڈیو پاکستان اور دیگر اداروں سے برسرروزگار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔ اب حکومت نے منافع بخش پاور ہاؤسز اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی نشانے پر رکھ دیا ہے اور پاور ہاؤسز سے 1800 سے زیادہ ملازمین کو سرپلس ڈیکلیئرکرکے ان پاور ہاؤسز کے کھربوں روپے کی قیمتی زمینوں پر نظر ہے جو کوڑیوں کے
مول سرمایہ داروں پر بیچنے کا منصوبہ ہے۔ مقررین نے کہا کہ پاور سیکٹر بالخصوص آئی پی پیز اور آرپی پیز کیلئے جو جوائنٹ انکوائری کمیٹی قائم کی تھی ان کی رپورٹ کے مطابق 51 کھرب روپے ان نجی پاور ہاؤسز کے مالکان نے لوٹے ہیں۔ آج بھی ندیم بابر، رزاق داؤد اور گوہر تابش سمیت دیگر لوگ اس حکومت کا حصہ بن کر نہ
صرف اپنے پہلے کئے گئے کرپشن کوچھپا رہے ہیں بلکہ وہ ان کمپنیوں کو خرید کر مستقبل میں ملک کو چینی اور آٹے کے بحرانوں کی طرح بجلی پر بھی قبضہ جما کر ملک کی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مزدوروں کو ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے برعکس لاکھوں
مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو بے روزگار کرکے ملک میں امن و امان، غربت، جہالت، پسماندگی اور بیماری کے مسائل میں مزید اضافے کر رہے ہیں۔مقررین نے کہا کہ اس وقت متعدد مزدور تنظیمیں اسلام آباد کے دھرنے کیلئے پہنچ چکی ہیں جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملازمین کا موجودہ حکومت پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ حکومت
نے وعدہ کیا تھا کہ وہ تنخواہ اور پنشن کمیٹی کے ذریعے یکم جنوری سے مزدوروں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرے گی لیکن اب حکومت حیلے بہانوں سے مزدوروں طفل تسلیاں دے رہی ہے۔ مقررین نے کہا کہ حکومت ڈھائی سال بعد پاور کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں تبدیلیاں لائی ہیں۔ کیسکو میں دوسرے صوبوں سے چیئرمین
اور ممبران لئے گئے ہیں جبکہ دوسری کمپنیوں میں صوبہ بلوچستان کے کسی فرد کو چیئرمین شپ یا ممبر شپ نہیں دی گئی ہے جو صوبہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہیں۔ انہوں نے حکومت پر واضح کیا کہ سی بی اے یونین باہر سے کسی بھی چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تعیناتی کو قبول نہیں کرے گی۔اس لئے ضروری ہے کہ
کمپنیوں کے تین جنرل منیجر بمعہ چیف انجینئر کاپینل بنا کر اس میں وفاقی حکومت اہل، ایماندار اور پرفیشنل انجینئر یا آفیسر کو چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکو اور دیگر کمپنیوں میں بھی ایسی تعیناتیاں کی جائیں۔ مقررین نے کیسکو کے سپرنٹنڈنگ انجینئرز کو دوسری کمپنیوں میں تبدیل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کیسکو کے تمام
سپرنٹنڈنگ انجینئر زکو کیسکو ہی میں تعیناتی دی جائے اور اسی طرح دیگر کمپنیوں سے آئے ہوئے سپرنٹنڈنگ انجینئرز کو دو،دو، تین، تین تنخواہیں دے کر کیسکو پر مالی بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کو اپنی اپنی کمپنیوں میں تعینات کیا جائے تاکہ وہ ادارے کی ترقی اور صارفین کی خدمات کیلئے بہترین کام کر سکے۔ مقررین نے کہا کہ
کیسکو میں سیاسی مداخلت عروج پر ہے سینئر انجینئرزاور آفیسر ان کی جگہ جونیئر آفیسران اور انجینئرز نے لی ہیں جو عدالت عالیہ بلوچستان کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جس پر کیسکو انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ مقررین نے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سی بی اے یونین کو نمائندگی دینے اور حکومت
یکطرفہ نجکاری کی پالیسی ترک کرنے، مہنگائی، بے روزگاری کو ختم کرنے، پے اینڈ پنشن کمیٹی کی شفارشات کا اعلان کرکے یکم جنوری سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرنے،یونین کی قیادت کے ساتھ پاور سیکٹرسے متعلق اصلاحات پر بات چیت کرنے پر زور دیا۔ بصورت دیگرنجکاری، مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی،
مزدوروں کے قتل عام کو روکنے، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے اور دیگر مطالبات کیلئے 20 فروری کو یونین کے مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔شکار پورمیں واپڈا ہائیڈرو یونین کی جانب سے ریلی نکال کر پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیاواپڈا کی نجکاری کسی
صورت منظور نہیں، رہنماؤں کا خطاب۔ تفصیلات کے مطابق آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین آپریشن سیپکو شکار پور کی جانب سے واپڈا کی نجکار ی کیخلاف پاور ہاؤس سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور شکارپور پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا، اس موقع پر مزدور اتحاد زندہ باد، واپڈا کی نجکاری
نامنظور کی شدید نعرے بازی کی گئی،احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ڈویژنل چیئر مین آغا شعیب احمد، آغا خیام خان،غوث بخش سنجرانی، نصیر سومرو اوردیگر نے کہا کے وفاقی حکومت واپڈا پیپکوکے اداروں کو نجکاری کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس فیصلے کو ہم رد کرتے ہیں، واپڈا نجکاری ہمیں کسی صورت میں
منظور نہیں ہے،جب تک نجکاری کے فیصلے کو واپس نہیں لیا جائے گا تب تک احتجاج جاری رہے گا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ واپڈا ملازمین کو ڈینجرز اور ٹیکنیکل الاؤنس دیا جائے،لائین پر کام کرنے والے ملازمین کو حفاظتی سامان مہیا کیا جائے،آن ڈیلی ویجز اور ٹی اے بل دیا جائے، اسٹاف کی کمی کو پورہ کیا جائے اور مہنگائی کی
مناسبت سے تنخواہوں میں اضافے کیا جائے۔چیچہ وطنی میں آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکر یونین نے حکومت کے خلاف محکمہ کی نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔سکھرمیں بھی ملازمین کا احتجاجی دھرنا،مظاہرہ و جلسہ،نجکاری ہماری لاشوں پر ہوگی یہ حکومت ادارے بیچ کر ملک کو دیوالیہ کرنا چاہتی ہے۔