اتوار‬‮ ، 13 جولائی‬‮ 2025 

سونے، جواہرات کے شعبے میں ٹیکس دینے میں ٹال مٹول سے خزانے کو بڑے نقصان کا انکشاف

datetime 20  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن ) ملک میں سونے اور قیمتی پتھر کے شعبے میں ٹیکس کی ناقص تعمیل کے باعث قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے۔اس بات کا انکشاف وفاقی بورڈآف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈائریکٹریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کی جاری کردہ رپورٹ میں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ نتائج اس وقت سامنے آ ئے جب ایف بی آر کی جانب

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات کی تعمیل کے سلسلے میں ریئل اسٹیٹ، جواہرات اور زیورات کے شعبوں میں دہشت گردی کی مالی معاونت پر پابندی کے لیے قواعد نوٹیفائڈ (نافذ) کیے ہیں۔اگرچہ وزارت تجارت سونے کی در آمدات اور برآمدات کی نگرانی کرتا ہے تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد ملک میں سونے کی اصل تجارت کی عکاسی نہیں کرتی۔ ڈائریکٹریٹ نے متعدد گرے ایریاز کی نشاندہی بھی کی جہاں ٹیکسز تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔واضح رہے کہ اکتوبر 2019 کی ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی میوچل ایوالیوایشن رپورٹ کے مطابق مالیاتی جرائم مقامی طور پر زیادہ تر ریئل اسٹیٹ سیکٹر، قیمتی دھاتوں اور جواہرات کے ذریعے شروع کیے جاتے ہیں نگرانی اور ضابطے کی عدم موجودگی کے باعث 2 شعبے ریئل اسٹیٹ اور قیمتی جواہرات اور زیورات کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں درمیانے سے اونچے درجے تک خطرناک قرار دیا گیا ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک بھر میں 60 ہزار جویلرز ہیں، جس میں سے صرف 21 ہزار 396 ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جس میں سے صرف 10 ہزار 524 نے 2019 میں اپنے ٹیکس ریٹرنز فائل کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف ود ہولڈنگ ریجیم کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد اوسطاً 9 ہزار ریٹرن فائلرز نے انکم ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی۔اگر فی ریٹرن فائلر کا

اوسطاً سالانہ انکم ٹیکس کا تخمینہ لگائیں تو وہ 5 ہزار 964 روپے بنتا ہے جبکہ اس طرح کی دھاتوں کا کام کرنے والے جویلرز کافی آمدنی کماتے ہیں اور ٹیکس کی ایک معقول رقم ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دوسری جانب گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں 180 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔مزید یہ کہ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ بڑی تعداد میں جویلرز نے

اپنی ا?مدنی کو ٹیکس ادا کرنے کی حد سے نیچے دکھایا، جو ایسے ٹیکس دہندگان کے ڈیکلیریشن (اعلان) کو شبہات میں ڈال دیتا ہے۔اس شعبے میں ٹیکس کی تعمیل اتنی کم ہے کہ ٹیکس سال 2015 سے 2019 کے درمیان 56.56 فیصد رجسٹرڈ افراد نے گوشوارے جمع نہیں کروائے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان انکم ٹیکس قوانین کی تعمیل نہیں کر رہے۔

وہیں موجودہ قوانین مقامی فروخت کی مقدار، جویلرز کے پاس موجود اسٹاک، مینوفیکچرنگ کی سہولیات اور کسٹم پروفائلنگ کو دیکھنے کے لیے مناسب طریقہ کار یا دستاویزات فراہم نہیں کرتے۔اسی طرح اس شعبے میں سیلز ٹیکس کی تعمیل بھی بہت حیران کن ہے، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 21 ہزار 396 قومی ٹیکس نمبر ہولڈرز میں سے صرف ایک ہزار 80 سیلز ٹیکس کے ساتھ

رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے اوسطاً 157 رجسٹرڈ افراد سیلز ٹیکس ریٹرن فائلرز ہیں جبکہ باقی اپنے سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کرتے۔اس میں تجویز دی گئی کہ وزارت تجارت، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کو سونے اور اس سے

منسلک اشیا کی تجارت میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے موجودہ قوانین کا جائزہ لینا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی تجویز دی گئی کہ اس شعبے کو صنعت کا درجہ دینا چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکے۔

موضوعات:



کالم



کاش کوئی بتا دے


مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…