منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

اگلی بار کسے بلا کر دیکھ لیا جائے کہ شاید کوئی بات بن جائے، عمران خان صاحب جس غلطی کا کفارہ ادا نہیں کر سکیں گے وہ کیا ہے؟ رئوف کلاسرا کا حیران کن انکشاف

datetime 13  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )عمران خان صاحب جس غلطی کا کفارہ ادا نہیں کر سکیں گے وہ ان کی میڈیا پالیسی ہے۔روزنامہ دنیا میں شائع رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ بائیس برسوں میں میڈیا عمران خان کا سب سے بڑا اتحادی تھا‘ جس نے شریفوں اور زرداری حکومتوں کو تن تنہا ایکسپوز کیا اور لوگوں میں شعور پھیلایا کہ ایک تیسری قوت اور لیڈرشپ کتنی ضروری ہے‘

لیکن وزیر اعظم بنتے ہی پہلے دن سے عمران خان کو ان کے میڈیا ایڈوائزرز اور ٹیم نے یہ بتایا کہ پاکستان میں حکومت کرنا ہے تو مین سٹریم میڈیا کا ‘مکو ٹھپنا‘ کتنا ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم پاکستانی میڈیا کو لگام ڈال دیں تو پھر ان کی حکومت کا وہ حشر نہیں ہو گا جیسا نواز لیگ اور زرداری کا میڈیا نے کیا۔ عمران خان کیمپ کو یقین تھا کہ اگر میڈیا میں بحران پیدا کرکے اس شعبے میں دو تین چینلز ہی باقی بچ جائیں تو پھر انہیں ہینڈل کرنا آسان رہے گا۔ سب نے نوٹ کیا کہ پہلے دن سے ہی میڈیا پر حملے شروع کر دئیے گئے تھے۔ عمران خان صاحب کا پریس بریفنگز میں شروع میں رویہ مختلف تھا اور آخری ملاقات میں تو وہ باقاعدہ ناراض ہو کر کہنے لگ گئے تھے کہ فلاں فلاں اینکر کا شو بند ہو جائے تو ملک کی اکانومی ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کے بعد نیا کام شروع ہو گیا۔ کسی صحافی نے سخت سوال کر دیا تو سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے ان کو نہ صرف گالیاں دلوائی گئیں بلکہ ٹویٹر پر غلیظ ٹرینڈ بھی چلوائے گئے۔ پھر سوچا گیا‘ مین سٹریم میڈیا کی طاقت توڑنے کیلئے یوٹیوبرز کو پروموٹ کیا جائے۔ پتہ چلا یوٹیوبرز کے پاس کوئی مواد یا خبر نہ تھی۔ کچھ دن گالی گلوچ اور پروپیگنڈا تو لوگوں نے سنا‘ پھر پتہ چلا کہ یوٹیوبرز جواب دے گئے ہیں۔ پھر سوچا گیا‘ اب سوشل میٖڈیا پر حکومت کے حق میں لکھنے والوں کو وزیر اعظم سے ملوایا جائے۔ پتہ چلا‘ ان بیچاروں کو چائے کا ایک کپ تک نہ پلایا گیا جو برسوں سے فیس بک پر دوستوں اور رشتہ داروں سے عمران خان کیلئے لڑائیاں کرتے آئے تھے۔ پھر سوچا گیا‘ ٹی وی چینلز کے پروڈیوسرز کو بلاتے ہیں تاکہ ان کو کنٹرول کریں۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی تو پھر سوچا‘ ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز کو بلایا جائے۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اس پر عدیل راجہ نے جملہ کسا کہ اگلی بار ٹی وی کے کیمرہ مینوں کو بھی بلا کر دیکھ لیا جائے کہ شاید بات بن جائے۔ جب پہلے دن سے اپنے سب سے بڑے اتحادی کو سینگوں پر رکھ لیا گیا تو دراصل اس میڈیا کو اپوزیشن کے کیمپ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ ان تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں میڈیا نے اپنی جان بچانے کے لیے اپوزیشن کو اہمیت دینا شروع کی۔ وہی اپوزیشن جس کی کرپشن یہ میڈیا افشا کرتا آیا تھا۔ حکومت کا خیال تھا جہاں اپوزیشن کو نکیل ڈال دی گئی ہے‘ وہیں میڈیا کا مکو بھی ٹھپ دیا گیا ہے۔ حکومت کو پتہ نہ تھا کہ دراصل وہ اپنا ‘مکو ٹھپ‘ رہی تھی

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…