ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اگلی بار کسے بلا کر دیکھ لیا جائے کہ شاید کوئی بات بن جائے، عمران خان صاحب جس غلطی کا کفارہ ادا نہیں کر سکیں گے وہ کیا ہے؟ رئوف کلاسرا کا حیران کن انکشاف

datetime 13  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )عمران خان صاحب جس غلطی کا کفارہ ادا نہیں کر سکیں گے وہ ان کی میڈیا پالیسی ہے۔روزنامہ دنیا میں شائع رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ بائیس برسوں میں میڈیا عمران خان کا سب سے بڑا اتحادی تھا‘ جس نے شریفوں اور زرداری حکومتوں کو تن تنہا ایکسپوز کیا اور لوگوں میں شعور پھیلایا کہ ایک تیسری قوت اور لیڈرشپ کتنی ضروری ہے‘

لیکن وزیر اعظم بنتے ہی پہلے دن سے عمران خان کو ان کے میڈیا ایڈوائزرز اور ٹیم نے یہ بتایا کہ پاکستان میں حکومت کرنا ہے تو مین سٹریم میڈیا کا ‘مکو ٹھپنا‘ کتنا ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم پاکستانی میڈیا کو لگام ڈال دیں تو پھر ان کی حکومت کا وہ حشر نہیں ہو گا جیسا نواز لیگ اور زرداری کا میڈیا نے کیا۔ عمران خان کیمپ کو یقین تھا کہ اگر میڈیا میں بحران پیدا کرکے اس شعبے میں دو تین چینلز ہی باقی بچ جائیں تو پھر انہیں ہینڈل کرنا آسان رہے گا۔ سب نے نوٹ کیا کہ پہلے دن سے ہی میڈیا پر حملے شروع کر دئیے گئے تھے۔ عمران خان صاحب کا پریس بریفنگز میں شروع میں رویہ مختلف تھا اور آخری ملاقات میں تو وہ باقاعدہ ناراض ہو کر کہنے لگ گئے تھے کہ فلاں فلاں اینکر کا شو بند ہو جائے تو ملک کی اکانومی ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کے بعد نیا کام شروع ہو گیا۔ کسی صحافی نے سخت سوال کر دیا تو سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے ان کو نہ صرف گالیاں دلوائی گئیں بلکہ ٹویٹر پر غلیظ ٹرینڈ بھی چلوائے گئے۔ پھر سوچا گیا‘ مین سٹریم میڈیا کی طاقت توڑنے کیلئے یوٹیوبرز کو پروموٹ کیا جائے۔ پتہ چلا یوٹیوبرز کے پاس کوئی مواد یا خبر نہ تھی۔ کچھ دن گالی گلوچ اور پروپیگنڈا تو لوگوں نے سنا‘ پھر پتہ چلا کہ یوٹیوبرز جواب دے گئے ہیں۔ پھر سوچا گیا‘ اب سوشل میٖڈیا پر حکومت کے حق میں لکھنے والوں کو وزیر اعظم سے ملوایا جائے۔ پتہ چلا‘ ان بیچاروں کو چائے کا ایک کپ تک نہ پلایا گیا جو برسوں سے فیس بک پر دوستوں اور رشتہ داروں سے عمران خان کیلئے لڑائیاں کرتے آئے تھے۔ پھر سوچا گیا‘ ٹی وی چینلز کے پروڈیوسرز کو بلاتے ہیں تاکہ ان کو کنٹرول کریں۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی تو پھر سوچا‘ ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز کو بلایا جائے۔ ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اس پر عدیل راجہ نے جملہ کسا کہ اگلی بار ٹی وی کے کیمرہ مینوں کو بھی بلا کر دیکھ لیا جائے کہ شاید بات بن جائے۔ جب پہلے دن سے اپنے سب سے بڑے اتحادی کو سینگوں پر رکھ لیا گیا تو دراصل اس میڈیا کو اپوزیشن کے کیمپ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ ان تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں میڈیا نے اپنی جان بچانے کے لیے اپوزیشن کو اہمیت دینا شروع کی۔ وہی اپوزیشن جس کی کرپشن یہ میڈیا افشا کرتا آیا تھا۔ حکومت کا خیال تھا جہاں اپوزیشن کو نکیل ڈال دی گئی ہے‘ وہیں میڈیا کا مکو بھی ٹھپ دیا گیا ہے۔ حکومت کو پتہ نہ تھا کہ دراصل وہ اپنا ‘مکو ٹھپ‘ رہی تھی

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…