پاکستان نئی گاڑیاں تیار کر سکتا ہے مگرکون ایسا نہیں ہونے دیتا، موجودہ وہیکل ٹرائیکا کے حکام بارے تہلکہ خیز انکشافات

17  ستمبر‬‮  2020

اسلام آباد(آن لائن)سینٹ کی قائمہ برائے صنعت و پیداوار نے سوزوکی،ٹیوٹا اور ہنڈا کے حکام کومافیا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انڈسٹری پلانٹ لگانے کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کر کے لائی جائے،کمیٹی نے الیکٹرک وہیکل کی راہ میں بھی موجودہ وہیکل ٹرائیکا کی جانب سے روڑے اٹکانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے،کمیٹی میں تجویز دی گئی کہ اگر موٹرز کمپنیوں کی یہ من  مانی

جاری رہی تو پھر پرانی گاڑیاں باہر سے منگوانے کی اجازت دی جائے،ٹیکس عام شہریوں سے لیکر مہنگی گاڑیاں بیج کر حکومت کو زیادہ ٹیکس دینے کا کریڈٹ نہ لیا جائے،کمیٹی نے یہ بھی قرار دیا کہ نئی گاڑیاں تیار کرسکتا ہے مگر مافیا ایسا نہیں ہونے دیتا،دوسری جانب سی ای او سٹیل ملز نے انکشاف کیا ہے کہ پانچ سال تک ملازمین کا ای او بی آئی تنخواہ سے کاٹا جاتا رہا اور ای او بی آئی میں جمع نہیں کرایا گیا،ملازم سٹیل ملز کے ہیں اور دیہاڑیاں باہر جا کر لگاتے ہیں، 19ہزار 13ایکٹر زمین سٹیل مل کی ملکیت ہے اور اور 7090ایکڑ پر ہاؤسنگ کالونی اور میس وغیر ہ ہیں،بیگم کلثوم پروین نے کہا کہ اگر آپ اتنی زمین پر گاجر مولی بھی لگا لیں تو تنخوائیں باہر سے نکل آتی ہیں،کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ اگلے اجلاس میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار،ایف بی آر اور تمام کمپنی حکام کو بلا کر انڈسٹری لگانے سے متعلق فائنل بات کی جائیگی،گزشتہ روز سینٹ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی احمد خان کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں سینٹرز ڈاکٹر آصف کرمانی،کلثوم پروین،کیشو بائی،محمد ایوب،سیمی ایزدی،نعمان وزیر خٹک،عتیق شیخ،اور ستارہ آیاز کے علاوہ سیکرٹری وزارت صنعت و تجارت،سی ای او سٹیل مل،ای ڈی پی حکام،سوزوکی،ٹیوٹا اور ہنڈا موٹرز کے حکام بھی شریک ہوئے،اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری وزارت سے کہا کہ وزارت سے جو سوال پوچھے گئے ہیں ان کا جواب نہیں ملا،

جس پر سیکرٹری وزارت جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوالات 11 ستمبر کو سوال موصول ہوئے تھے جواب نہ آنے پر میں معذرت خواہ ہوں، میں درخواست کرتا ہوں اس ایجنڈا کو اگلے اجلاس تک موخر کیا جائے، سینٹر کیشو بائی نے کہا کہ یہ تو درست نہیں ایجنڈا پہلے بھیج دیا جاتا ہے وزارت کو جواب دینا چاہیے تھا، سینٹر محمد ایوب نے کہا کہ ہم کمیٹی اجلاس میں آتے ہیں وزارت کو جواب دینا چاہیے،

سینٹر نعمان وزیر نے کہا پاکستان میں بننے والے کار پارٹس پر 48 فیصد ڈیوٹی کی وجہ سے امپورٹ جاری ہے اس بھاری ڈیوٹی کیوجہ سے پاکستان میں پارٹس بننا بند ہورہے ہیں پالیسی غلط ہونے کی وجہ سے پاکستان میں فیکٹریاں بند اور ملازمتیں ختم ہورہی ہیں،اس معاملہ پر وزارت انڈسٹری سے تفصیلی جواب طلب کیا جائے گا،سینٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ پاکستان میں کوالٹی کم اور قیمت

زیادہ والی گاڑیاں بن رہی ہیں، اون منی دن بدن بڑھتی جارہی ہے جس سے صارفین پر ظلم ہورہا ہے،اون منی پر بھی وزارت صنعت سے جواب طلب کیا جائے،سینٹر نعمان وزیر نے کہا پاکستان میں سیفٹی، آلودگی اور کوالٹی کے معیار کو گاڑیوں میں لاگو کرنا ہوگا،ان کی جانچ پڑتال تھرڈ پارٹی ذریعے ہونا ضروری ہے،گاڑیاں بنانے والوں کے لئے اس ضمن میں روڈ میپ متعین ہوگا،اس موقع پر ہنڈا کے

سی ای او مسعود رحمانی نے کہاکہ حکومتی احکامات اون منی اور وقت پر گاڑی فراہم کرنے کے بارے میں جاری ہوچکے، گزشتہ چھ سال میں ہم نمبرون ٹیکس پیئر ہیں، ہماری کاروں میں 50 سے 65 فیصد لوکل پارٹس استعمال ہوتے ہیں،ہمارا اکثریتی خام مال درآمد ہوتا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ناقص ٹائروں کی وجہ سے زیرو میٹر گاڑی میں نئے ٹائر لگوائے جاتے ہیں، سینٹر آصف کرمانی

نے اس موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ چھوٹی گاڑی کی قیمت 16 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے،مڈل کلاس لوگ اپنا زیور بیچ کر سامان گروی رکھ چھوٹی گاڑی لیتے ہیں،گاڑیوں کی کوالٹی درست نہیں منافع لیں مگر کوالٹی بھی دیں، اس ریجن میں گاڑیوں کی کوالٹی کیا ہے وہ کوالٹی تو پاکستان کے لوگوں کو دیں،عتیق شیخ نے کہا عمران خان سے گزارش ہے کہ گاڑیوں والے مافیا کے خلاف کاروائی

کریں،ہنڈا حکام نے کہا کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں رواں سال گاڑیوں کی طلب میں کمی ہوئی ہے،ہم حکومت کیلئے کما رہے ہیں منافع پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے،سینٹر کیشو بائی نے کہا ٹویوٹا پر تین سال پہلے ایک لاکھ اون دیا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ ٹیکس دے رہے ہیں تو وہ ٹیکس عوام سے لے رہے ہیں، آصف کرمانی کا کہناتھالوگوں کو سڑکیں ٹھیک نہیں دی جا رہی

گاڑیاں خراب ہوتی ہیں تو کمپنیوں کے پاس آتی ہیں، امریکہ میں گاڑیوں کی قیمتیں کم اور کوالٹی اچھی ہے یہاں کیوں نہیں ہیں، اس موقع پر کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ سوک گاڑی بغیر ٹیکس کے 39لاکھ ٹیکس پندرہ لاکھ،سٹی بغیر ٹیکس 37جبکہ ٹیکس 9لاکھ اور بی آر وی 40لاکھ اور ٹیکس 13لاکھ 91ہزار روپے ہے،یہاں کمیٹی نے کہا ٹیکس کمپنی دیتی ہے یا گاڑی لینے والا عام شہری، جس

کمیٹی نے کہا کہ جب شہری ٹیکس دیتا ہے اور پھر کمپنی کیوں کلیم کرتا ہے کہ وہ ٹیکس پیئر ہے،خدا کے لیے قوم کو اتنا تنگ نہ کیا جائے،آصف کرمانی نے کہا کہ صابن دانی نما مہران گاڑی کی قیمت نو لاکھ سے چھلانگ لگا کر 16لاکھ روپے تک پہنچ گئی،یہ گاڑی عام موٹر سائیکل والا استعمال کرتا تھا اور عام شریف آدمی اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے یہ گاڑی خرید کرتا تھا مگر مافیا نے یہ

بھی چھین لیا ہے،الیکٹرک ویکل بھی ان مافیا کی بھینٹ چڑھ جائیگا اور ہمیں خدشہ ہے کہ وہ گاڑی تین ویلر اور چار ویلر کی پرپوزل تیار ہو چکی ہے اور اس کے درمیان روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور انکو پتہ ہے کہ انکی دوکانداری ختم ہو جائیگی،نعمان وزیر نے کہا کہ میں ای ڈی پی کا ڈائریکٹر ہوں اور انکی اندر کی باتیں بخوبی جانتا ہوں اور ملت ٹریکٹر اور میسی فرگوسن ٹریکٹر سستے

اس لیے ہیں وہ انجن یہاں تیار کرتے ہیں اور اگر وہ کر سکتے ہیں تو پھر سوزوکی،ٹیوٹا والے کیوں نہیں کر سکتے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کمپنیوں کا ٹرائیکا توڑنے کے لیے سیکنڈ گاڑی باہر سے منگوانے کی اجازت دے،انہوں نے کہا کہ 693پر عمل ضروری ہے بصورت دیگرہمارا سستی گاڑیوں کا خواب ادھورا رہ جائے گا،یہاں کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں پر ٹیکسوں کے

حوالے سے آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں وزیر صنعت کو بھی بلا لیا،وفاقی وزیر بھی آئیں تو مسئلہ کا حل نکال لیں گے،سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں امپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ کمپنیوں کی مناپلی ختم ہو،اس موقع پر سی ای او سٹیل مل نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز کی ہزاروں ایکٹر زمین مختلف اداروں کو دی گئی ہے، میں یہ

قبول کرتا ہوں کہ اسٹیل ملز کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے، تنخواہ اسٹیل ملز سے لیکر ملازمین دوسری جگہ پر کام کررہے ہیں، جو اداروں کے پاس زمینیں ہیں وہاں اگر سبزی بھی اگا لوں تو گارڈز کی تنخواہیں نکل آئیں،منیجمنٹ کے طور پر اسٹیل ملز کے حالات خراب ہیں،کمیٹی نے اسٹیل ملز کے سی ای او کی کارکردگی کو سراہا، سینٹر نعمان وزیر نے کہا کہ جو شعبے بند ہیں ان ملازمین کو نکال

دیں، میں اسٹیل ملز کا ملازم ہوں اور حکومت پاکستان اس کی مالک ہے کیڈٹ کالج کا پرنسپل ڈبل ایم اے کو لگایا اور اس نے کوئی ورکشاپ ڈیزائن نہیں کی،اس کو نکالا گیا اور وہ عدالت میں چلا گیا عدالت نے دوبارہ تعینات کردیا،میں کیسے ملازمین کو نکال دوں،یہاں سی ای او نے کہا کہ 19ہزار 13ایکٹر زمین سٹیل مل کی ملکیت ہے اور اور 7090ایکڑ پر ہاؤسنگ کالونی اور میس وغیرہ ہیں،

بیگم کلثوم پروین نے کہا کہ اگر آپ اتنی زمین پر گاجر مولی بھی لگا لیں تو تنخوائیں باہر سے نکل آتی ہیں،سیٹیل مل سی ای او نے انکشاف کیا کہ جب وہ ادارے میں آئے تو پانچ سال تک ای او بی آئی کاٹا جا رہا تھا مگر قومی خزانہ میں وہ رقم جمع نہیں کرائی جا رہی تھی اور کچھ ایسے پلانٹ بھی ہیں کہ جو گیس و بجلی پر چلتے ہیں اور مسلسل پانچ سال سے ایسا ہو رہا ہے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…