اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسد عمر بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہوں گے‘ مگر کچھ ایسی خامیاں بھی ہیں جو ان کے وزیر خزانہ بننے کے بعد سامنے آئیں‘ لوگوں کا ان سے رومانس ٹوٹا اور انہیں وزارتِ خزانہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ روزنامہ دنیا میں شائع رئوف کلاسرا اپنے کالم میں
لکھتے ہیں کہ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے وزیر خزانہ بننے کے بعد ایل این جی مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اور انہوں نے ان معاملات کو ای سی سی کے اجلاسوں میں بھی اٹھایا۔ انہوں نے بہت سی بحث کے بعد فیصلے کیے کہ ایل این جی ٹرمینلز کے کنٹریکٹس میں بہت گھپلے ہوئے تھے‘ یہ معاہدے کینسل کیے جائیں گے۔ لیکن کچھ دنوں بعد ان پر دبائو پڑا تو انہوں نے کہا کہ چلیں کابینہ کو کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد اُس وقت کے پٹرولیم منسٹر غلام سرور خان نے پریس کانفرنس میں وہ تفصیلات بتائیں کہ کیسے دو پرائیویٹ پارٹیوں کو شاہد خاقان عباسی صاحب نے عیاشی کروائی تھی۔ مطلب تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری پر دو سو ارب روپے کا پرافٹ دیا گیا۔ تیرہ ارب لگایا پاکستانی پارٹی نے اور لگا بھی پاکستان میں لیکن ادائیگی پندرہ برس تک ڈالروں میں ہو گی اور روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ملیں گے‘ چاہے ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ جب ڈیل ہوئی تو ڈالرنوے روپے کا تھا اور آج ایک سو ستر روپے کے قریب ہے‘ لہٰذا پرافٹ خود بخود ڈبل ہوگیا۔ فیصلہ ہوا کہ کابینہ ان معاہدوں پر نظرثانی کرے گی۔ جس پارٹی کو ڈیل ملی تھی وہ عبدالرزاق داؤد کے کزن ہیں۔