اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’پلیز مجھے بتا دیں ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ہم پاکستانی بھی کیا دل چسپ قوم ہیں‘ ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو بھی تسلیم نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر بھی آج تک فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘ آپ تاریخ نکال کر دکھا دیں ہمارا کون سا صدر‘ وزیراعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا یا ہم نے فلسطین کے لیے
کون سی قربانی دی؟ ہم گھر بیٹھ کر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور جب انہیں ہماری ضرورت پڑتی ہے تو ہم ان پر ٹینک چڑھا دیتے ہیں‘ یہ ہے ہمارا کنٹری بیوشن اور دوسری طرف ہم جن عربوں کے لیے مر رہے ہیں وہ کشمیر کے نام پر وضو تک کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم 2019ء میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد جمع کرانے کے لیے بھی 16 برادر اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکے تھے جب کہ بھارت کو جنرل اسمبلی کے غیر مستقل ممبر کے الیکشن میں 192میں سے 184ووٹ ملے اور یہ ریکارڈ ہے گویا ہمارے سارے برادر اسلامی ملکوں نے ہماری درخواست کے باوجود ہمارے دشمن کو ووٹ دیے اوریہ ہے برادر اسلامی ملکوں میں ہماری اوقات مگر ہم اس کے باوجود اپنے منہ پر پڑنے والے چھتروں کو چھتر نہیں مانتے۔ہم انہیں بھی مقدس جوتا بنا دیتے ہیں‘دوسرا ہمارے پاس جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت یہ تک بھول جاتے ہیں علامہ اقبال نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے باوجود سر کا خطاب قبول کر لیا تھا اور قائداعظم 1947ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے
پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا اور جس نے بعد ازاں اپنے ہاتھ سے اسرائیل کے قیام کی اجازت دی تھی لہٰذا یاد رکھیں لوگ ہوں یا قومیں یہ حالات میں زندہ رہتی ہیں‘ جذبات اور ماضی کے قبرستانوں میں نہیں۔اور آپ اگر قوم ہیں تو پھر صرف پوسٹیں شیئر نہ کریں‘ فلسطین کے لیے کھل کر لڑیں‘ رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح اسرائیل کی بنائی یا ایجاد کردہ ہر
چیز کو بھی مسترد کر دیں‘ اسرائیل کے سب سے بڑے حامیوں کے وجود سے بھی انکار کر دیں اور یورپ اور امریکا کو بھی مسترد کر دیں اور یہ اعلان بھی کر دیں ہم ہر اس ملک کو بھی نہیں مانیں گے جو اسرائیل کو مان رہا ہے اور ہم 72سال سے کیمپوں میں پڑے فلسطینیوں کو بھی لا کر پاکستان میں آباد کریں تاکہ دنیا کو پتا چلے ہم نے کسی کی حمایت کی ہے‘ ہم نے کسی کے لیے مار کھائی ہے اور یہ
اگر ممکن نہیں تو پھر ہم مسقط میں چھپ چھپ کر بات چیت نہ کریں‘ کھل کر اسرائیل سے مذاکرات کریں۔اور یہ ڈیل اگر ہمیں سوٹ کرتی ہے تو پھر مردانہ وار اس کا اعتراف کریں اور یہ اگر ہمیں وارہ نہیں کھاتی تو سینہ ٹھوک کر انکار کریں اور اگر ہم میں یہ ہمت‘ یہ جرات بھی نہیں تو پھر ہم قوم کو کم از کم اتنا تو بتا دیں ہمارا ایشو آخر ہے
کیا؟ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اسرائیل کو کیوں نہیں مان رہے! قوم کو کم از کم اپنے قومی موقف کی سمجھ تو آئے‘یقین کریں میں آج تک پاکستانی موقف نہیں سمجھ سکا‘ مجھے سمجھ نہیں آئی ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں یا مخالف اور ہم نے یہ سٹینڈ کیوں اور کس کے لیے لے رکھا ہے؟اگر آپ جانتے ہیں تو پلیز آپ مجھے بھی بتا دیں۔