اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی انصار عباسی نے موقر قومی اخبار میں اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد نیب کی طرف سے تیار کئے گئے اصولوں کے مسودے کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیئرمین کے عہدے کے حوالے سے مرکزیت پسند نوعیت کے ہیں اور اس میں چیئرمین کو پہلے سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے ہیں، اس کے علاوہ چیئرمین نیب کے
اختیارات کے حوالے سے کوئی حدود بھی طے نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ان کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے کوئی بند باندھا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور منشاء سے گرفتاریوں کے وارنٹ جاری نہ کر سکیں۔ انصار عباسی نے لکھا کہ سرکاری ملازمتوں کے معاملات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ قواعد کے مسودے کا ابتدائی جائزے کے مطابق بلا روک ٹوک اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے نقائص سے پر ایک فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔ کچھ پہلوؤں میں شرارت انگیزی سے بھی کام لیا گیا ہے۔اگرچہ قانون میں بتا دیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کیلئے عہدے کی ناقابل توسیع مدت چار سال جبکہ پراسیکوٹر جنرل کیلئے تین سال ہوگی، لیکن ان قواعد میں دونوں عہدیداروں کو اپنے عہدوں کی مدت سے زیادہ کام کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے جس سے قواعد کا یہ مسودہ غیر قانونی ہو جاتا ہے۔ تجزیے کے مطابق مسودے میں اصول نمبر 19 (ای) میں لکھا ہے کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن نمبر 18 اور 32 کے ناموافق اثرات سے بچنے کے لئے، چیئرمین اور پی جے اے اس وقت تک عہدے پر برقرار رہیں گے جب تک ان کے جانشین کا تقرر نہ ہو جائے۔چیئرمین کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اختیارات کے استعمال کی وضاحت کے حوالے سے قواعد بنانے کی بجائے قواعد کے مسودے میں چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کسی بھی
ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے رہنما اصول جاری کریں گے اور ان پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔نیب چیئرمین ماضی میں بلا روک ٹوک اپنے اختیارات استعمال کرتے رہے ہیں اور کچھ معاملات میں ملزمان کو شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر ہی گرفتار کرلیا گیا جبکہ دیگر معاملات میں ملزمان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا حالانکہ عدالت میں ایسے ملزمان کیخلاف ریفرنس دائر ہو چکا تھا۔تجزیے کے مطابق نیب میں
انتہائی متنازع بھرتیوں، جن کی نشاندہی سپریم کورٹ بھی کر چکی ہے، کو نظرانداز کرتے ہوئے قوائد کے مسودے میں اس بات کا ذکر بھی شامل نہیں کہ بیورو میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن جیسے آزاد ادارے کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گی۔ اس کی بجائے، گریڈ 19 میں تمام تر بھرتیاں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر کریں گے جبکہ ایک سے 15 گریڈ تک کی بھرتیاں ڈائریکٹر ایچ آر یا پھر متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز کریں گے۔حکومت میں
کہیں بھی گریڈ 20 اور 21 میں براہِ راست ریگولر بنیادوں پر بھرتیاں نہیں ہوتیں۔ لیکن نیب کے قوائد کے مسودے میں چیئرمین نیب کو ان دو گریڈز پر براہِ راست بھرتی کا اختیار دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ 22 گریڈ پر ہونے والی ترقی دینا بھی چیئرمین کا اختیار ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا طاقتور ترین سویلین محکمہ، جس پر اکثر مخالفین کو نشانہ بنانے اور سیاسی جوڑ توڑ کا الزام لگتا ہے، اپنی بھرتیاں خود کرے گا اور بھرتیوں کے
عمل پر کوئی بیرونی نگرانی بھی نہیں ہوگی۔اعلیٰ عدالتوں نے نیب میں بھرتیوں پر سوالات اٹھائے ہیں اور ادارے میں کی جانے والی کئی بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ان قوائد میں چیئرمین کے اختیارات پر کوئی قدغن نہیں۔تجزیے کے مطابق چیئرمین نیب بیورو کے علاقائی دفاتر کے کردار کا تعین، اس میں تبدیلی یا اس کی بندش کا فیصلہ کر سکتے ہیں، وہ کسی بھی انکوائری کو ایک ریجن سے دوسرے ریجن میں منتقل کر سکتے ہیں حتیٰ کہ ایک صوبے کے ملزم کا ریفرنس دوسرے صوبے کی عدالت میں دائر کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔