اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔یہ وہی حکومت ہے جس نے صدر عارف علوی سے راتوں رات آرڈیننس جاری کروایا کہ کاروباری دوستوں اور چندہ پارٹی کو دو سو ارب روپے سے زائد پیسہ معاف کیا جاتا ہے۔ جب میڈیا نے شور مچایا تو میڈیا کا حشر کر دیا گیا ۔ پتہ چلا کہ دو ‘ تین وزیروں کی اپنی کمپنیاں تھیں جنہیں اربوں کا فائدہ ہورہا تھا ۔
عمران خان صاحب میڈیا سے ناراض ہوئے ‘ میرا اور عامر متین کا ٹی وی شو بند اور نوکریاں ختم کروائی گئیں کہ ہم جی آئی ڈی سی سکینڈل پر شوز کررہے تھے۔ جب دبائو بڑھا تو آرڈیننس واپس لے لیا‘ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس کیس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں ۔ اللہ بھلا کرے جناب جسٹس مشاہیر عالم اور جناب جسٹس فیصل عرب کا جنہوں نے وہ پورے چار سو ارب واپس کروائے۔ حکومت یہ مقدمہ ہارنے کے لیے عدالت گئی تھی تاکہ میڈیا پر الزام دھر اجا سکے کہ ان کی وجہ سے وہ دوسو ارب روپے بھی ڈوب گئے جو مل رہے تھے۔ اب ذرا تصور کریں اگر یہ مقدمہ ہار جاتے تو وزیر اعظم صاحب نے بذاتِ خود پوری کابینہ کے ساتھ بیٹھ کر لائیو پریس کانفرنس کرنی تھی کہ کیسے میڈیا ملک دشمن اور جھوٹا ہے اور اس نے قوم کے دو سو ارب روپے ڈبو دیے ۔ ان صحافیوں کو یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کردیتے جنہوں نے جی آئی ڈی سی میں دوسو ارب روپے معافی پر سٹینڈ لیا تھا۔ اب بھاگ کر ان سب نے کریڈٹ بھی لے لیا ہے۔بندہ ایسے ہی حکمران نہیں بن جاتا‘ بہت محنت کرنا پڑتی ہے‘ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کے لیے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ترکی کی کمپنی کارکے کا کیس دیکھ لیں ۔ ایک طرف وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ طیب اردوان نے احسان کیا‘ دوسری طرف تین افسران کو یہ کہہ کر میڈل بھی دے دیا کہ انہوں نے ترکی کی کمپنی کی بدعنوانی پکڑ لی ‘ جس پر وہ اپنا کیس ہارگئے۔جی آئی ڈی سی کیس میں حکومت قانون بنا کر دو سو ارب روپے معاف کرچکی تھی اور اب یہ فرماتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے یہ پیسے واپس ملے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ آپ جب تک لوگوں کے اعتماد اور اعتبار کی قربانی نہیں کرتے‘ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ہنر نہیں جانتے‘ اس وقت تک آپ اوپر نہیں پہنچ سکتے۔اگر آپ میں سے کوئی اس کرتب میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس پر زیادہ نہیں صرف بائیس برس لگتے ہیں۔