اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگا ر جاوید چودھری اپنے کالم ’’ ایک ہی بار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کالو بے چارہ بھی مہاجر تھا‘ وہ ہر لحاظ سے کم زور تھا اور وہ ہم میں خود کو ’’آڈ‘‘ محسوس کرتا تھا لہٰذا اس نے اپنی کم زوری کا دل چسپ حل نکالا‘ لائل پور (فیصل آباد) میں اس کا کوئی دور پار کا ماموں رہتا تھا‘ اس نے اس ماموں کو ’’گلوری فائی‘‘ کرنا شروع کر دیا‘ ہم جو بھی بات کرتے تھے
کالو اس میں اپنا ماموںڈال دیتا تھا‘ شہر میں پہلی کار آئی‘کالو نے ہمیں بتانا شروع کر دیا میرے ماموں کے پاس اس سے بھی بڑی کار ہے‘ شہر میں کسی نے کسی بدمعاش کا پھینٹا لگا دیا‘ کالو نے اسی شام دعویٰ کر دیا میرا ماموں اب تک ایسے پچاس بدمعاشوں کوپھینٹی لگا چکا ہے‘ شہر میں پہلی کوٹھی بنی تو اس نے بتایا اس کے ماموں کی کوٹھی اس سے دگنی بڑی ہے‘ کسی بارات میں کسی ب اراتی نے دو تین ہزار روپے کے نوٹ لٹا دیے‘ کالو نے بتایا اس کے ماموں ہر بارات میں اس سے تین گنا زیادہ رقم لٹا دیتے ہیں‘ہم بچے دل ہی دل میں کالو کے ماموں سے متاثر ہونے لگے‘ وہ ظالم نقشہ ہی ایسا کھینچتا تھا‘ یہ سلسلہ شاید اس سے بھی آگے نکل جاتا مگرپھر ایک واقعہ پیش آیا اور لائل پور کے ماموں کے غبارے سے ہوا نکل گئی‘ ہمارے ایک کلاس فیلو کے ننھیال لائل پور میں تھے‘ وہ لائل پور کے ماموں کا ذکر سن کر تنگ آ گیا اوراس نے باتوں ہی باتوں میں کالو سے ماموں کا حدود اربع پوچھ لیا‘ وہ کلاس فیلو چھٹیوں میں فیصل آباد چلا گیااور اس نے کالو کے ماموں کی ٹوہ لگانا شروع کر دی‘ پتا چلا فیصل آباد میں واقعی اس نام کا شخص موجود ہے اور وہ خوش حال بھی ہے اور یہ بھی کنفرم ہو گیا وہ شخص بھی تقسیم کے وقت کالو کے شہر سے فیصل آباد آیا تھا‘ ہمارا کلاس فیلو کالو سے مزید متاثر ہو گیا لیکن کہانی اگلے دن اس وقت پلٹ گئی جب وہ کلاس فیلو اپنے ماموں کے ساتھ کالو کے ماموں کے
گھر پہنچ گیا‘ پتا چلا کالو کے خاندان اور لائل پورکے ماموں کے درمیان صرف ایک رشتہ ہے اور وہ رشتہ یہ ہے کہ یہ دونوں کلا نار سے پاکستان آئے تھے‘ دونوں رانگڑ ہیں تاہم یہ دونوں ایک دوسرے کو دور دور تک سے نہیں جانتے‘ کالو کا باپ اور دادا کلا نار میں بھی گول گپے لگاتے تھے جب کہ فرضی ماموں کا خاندان وہاں زمین دار تھا لیکن کالو نے ہمیں متاثر کرنے کے لیے اسے اپنا ماموں ڈکلیئر کردیا تھا
اور گول گپے کی ریڑھی پر کھڑا ہو کر اپنے ماموں کی ہر ’’اچیومنٹ‘‘ کو اپنی بنا لیتا تھا۔کالو کی کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن مسافر کالو کو آج تک نہیں بھلا سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ کالو کسی ایک کالو کا نام نہیں‘ ہم من حیث القوم کالو ہیں‘ ہم نے 72 سال اپنے فرضی ماموئوں کے انتظار میں ضائع کر دیے ہیں‘ ہماری پوری سفارتی پالیسی ’’لائل پور کے ماموں‘‘ پر بیس کرتی ہے تاہم کالو اور ہماری
سفارتی پالیسی میں ایک فرق ضرور ہے‘ کالو کا ایک ماموں تھا جب کہ ہماری وزارت خارجہ درجنوں ماموئوں پر مبنی ہے‘ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں تیل‘ گیس یا سونا نکل آتا ہے تو ہم خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ساری توقعات کا ٹوکرا اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں‘ عرب ملکوں میں تیل نکلا تو یہ ہمارے ماموں ہو گئے‘ ایران میں انقلاب آیا تو ہمیں پاکستان کے ہر شہر میں امام خمینی دکھائی دینے لگے‘ مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنا دیا تو یہ ہمارے ماموں بن گئے‘ طیب اردگان ترکی میں کام یاب ہو گئے تو ہمیں ان میں ماموں ارطغرل نظر آنے لگ